حماس کا بیان: ایران پر صہیونی فضائی حملہ مسلم امہ سے دشمنی قرار
حماس نے اسلامی دنیا، عرب ممالک اور ہر باضمیر قوم سے مطالبہ کیا کہ وہ قابض صہیونی حکومت کی اس مسلسل جارحیت کے خلاف ایک متحدہ موقف اپنائیں اور اس کے جرائم کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) مزاحمتی اسلامی تحریک حماس نے قابض صہیونی ریاست کی جانب سے ایران پر کیے گئے وحشیانہ اور غیر متوقع فضائی حملے کو انتہائی خطرناک اقدام قرار دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ یہ کارروائی پورے خطے کو ایک تباہ کن جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ جمعہ کی صبح تہران کے مرکزی علاقے میں ہونے والی یہ ظالمانہ کارروائی جنگی جرائم کے مرتکب بنجمن نیتن یاہو کی انتہا پسند حکومت کی اس توسیع پسندانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے جو ہر جگہ بدامنی اور خونریزی پھیلانے کی خواہاں ہے۔
اپنے بیان میں حماس نے اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ نہ صرف بین الاقوامی اصولوں، عالمی قوانین اور معاہدوں کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ یہ اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ قابض صہیونی حکومت کا منصوبہ صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ یہ پورے خطے کے لیے ایک وجودی خطرہ بن چکا ہے۔
حماس نے یہ بھی واضح کیا کہ ایران اس وقت فلسطینی حریت اور مزاحمت کی حمایت کرنے کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ بیان میں تہران کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا اور ان شہداء کے لیے تعزیت پیش کی گئی جو اس ناپاک حملے میں شہید ہوئے، جن میں پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی، ایرانی چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری اور کئی ایٹمی سائنسدان شامل ہیں۔
حماس نے اسلامی دنیا، عرب ممالک اور ہر باضمیر قوم سے مطالبہ کیا کہ وہ قابض صہیونی حکومت کی اس مسلسل جارحیت کے خلاف ایک متحدہ موقف اپنائیں اور اس کے جرائم کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔
حماس نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ قابض صہیونی ریاست ہی امت اسلامیہ کا اصل دشمن ہے، اور اس کے خلاف جدوجہد زندگی اور موت کی جنگ ہے جس میں تمام قوتوں کی ہم آہنگی اور اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ جمعہ کی علی الصباح قابض صہیونی فضائیہ نے درجنوں جنگی طیاروں کی مدد سے تہران کے حساس علاقوں کو نشانہ بنایا۔ اس وحشیانہ کارروائی کو اُبھرتا ہوا شیر کا نام دیا گیا۔ اس حملے میں کئی اہم عسکری و سائنسی شخصیات شہید ہو گئیںجبکہ ایرانی رہبر اعلیٰ کے مشیر علی شمخانی شدید زخمی ہوئے۔
اس جارحیت کے بعد دنیا بھر میں بالخصوص عرب اور اسلامی ممالک میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔
عالمی ردِعمل میں اس کارروائی کو طاقت کے بے جا استعمال خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ اور ایک نئی جنگ کی طرف دھکیلنے کی سازش قرار دیا جا رہا ہے۔