کشتی میڈلین: قابض اسرائیلی جبر کے باوجود امید اور یکجہتی کا پیغام
میڈلین غزہ کی وہ عظیم خاتون تھیں جو اپنی چھوٹی سی کشتی پر محنت کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پالتی تھیں۔ قابض صہیونی فوج نے ان کی کشتی تباہ کر دی، مگر وہ نہ جھکیں، نہ رکیں۔
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) جب عالمی طاقتوں کے مفادات انسانیت کے تقاضوں پر حاوی ہو چکے ہوں، ایسے میں کشتی میڈلین نے محصور اہلِ غزہ کے لیے امید کی ایک کرن روشن کی۔ یہ کشتی محض ایک بحری جہاز نہیں تھی، بلکہ آزادی کا استعارہ تھی، جو سمندر کو ایک بار پھر آزادی کی علامت بنانے نکلی، نہ کہ جدید دور کی ظالمانہ بحری قزاقی کی حمایت کرنے۔
اس کشتی پر بارہ کارکن سوار تھے، جن میں سویڈن کی نوجوان ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن نمایاں تھیں۔ یہ کشتی غزہ کی جانب روانہ ہوئی، اور اگرچہ اس میں امداد کی مقدار علامتی تھی، لیکن اس کی معنوی قدر بےحد عظیم تھی۔ اس کا پیغام یہ تھا کہ محصور فلسطینی تنہا نہیں ہیں اور دنیا کا ضمیر ابھی مکمل طور پر مردہ نہیں ہوا۔
"اگر آپ یہ ویڈیو دیکھ رہے ہیں تو ہمیں قابض صہیونی فوج یا اس سے ملی بھگت رکھنے والی افواج نے اغوا کر لیا ہے” یہ پیغام کشتی میڈلین پر سوار رضاکاروں کی طرف سے بھیجا گیا، جنہیں قابض اسرائیل نے کھلے سمندر میں یرغمال بنا لیا تھا۔
میڈلین سے براہ راست رابطہ کئی دن تک منقطع رہا۔ اطلاعات متضاد تھیں اور عملے کا انجام غیر واضح۔ یہاں تک کہ صہیونی ذرائع نے انکشاف کیا کہ قابض اسرائیلی افواج نے نرمی سے کشتی کو روک کر اسے قابض بندرگاہ اسدود منتقل کر دیا، جہاں سے کارکنوں کو رملہ کے حراستی مرکز بھیجا گیا۔
قابض اسرائیل جس نرمی پر فخر کر رہا ہے، وہ دراصل بین الاقوامی پانیوں میں کی گئی مکمل بحری قزاقی تھی، جسے دنیا بھر سے شدید مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔
میڈلین غزہ کی وہ عظیم خاتون تھیں جو اپنی چھوٹی سی کشتی پر محنت کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پالتی تھیں۔ قابض صہیونی فوج نے ان کی کشتی تباہ کر دی، مگر وہ نہ جھکیں، نہ رکیں۔ اسی استقامت کی یاد میں اس کشتی کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا۔
ترکیہ کی وزارت خارجہ نے واقعے کو "بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ صہیونی فوج نے رضاکاروں کو اغوا کیا اور یہ عمل ایک دہشتگرد ریاست کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
اسپین نے بھی سخت احتجاج کیا اور صہیونی قائم مقام سفارتکار کو طلب کیا، کیونکہ ان کا شہری سرخیو توریبیو اس کشتی میں موجود تھا۔
تل ابیب میں قابض حکام نے ہمیشہ کی طرح مظلوم کو مجرم بنانے کی کوشش کی۔ قابض صہیونی حکومت کے وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے 7 اکتوبر کے حملے کی فوٹیج رضاکاروں کو دکھانے کی دھمکی دی، جسے ماہرین نے سچ چھپانے کے لیے جھوٹ پر مبنی سیاسی پروپیگنڈہ قرار دیا۔
قابض حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر نے کشتی پر موجود امداد کو معمولی قرار دے کر معاملے کو گھٹانے کی کوشش کی، مگر وہ اس حقیقت کو نظرانداز کر بیٹھے کہ یہ جہاز ایک علامت بن چکا ہے، ضمیر کی علامت، مزاحمت کی علامت۔
یہ کشتی اٹلی کے جزیرہ صقلیہ سے روانہ ہوئی، جہاں اسے حکومتی و عوامی حمایت میں روانہ کیا گیا۔ صقلیہ میں کارکنوں کا استقبال ہوا، مگر قابض اسدود میں ان کے لیے سلاخیں تھیں۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ قابض صہیونی انسانی ہمدردی سے کیسے خائف ہے۔
جنگی مجرم نیتن یاھو کی خون خوار حکومت اسے معمولی واقعہ دکھانا چاہتی تھی، مگر دنیا نے اس بیانیے کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے منظم دہشتگردی قرار دیا اور سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں وائرل ہو گئیں جن میں قابض اسرائیل کو بحری قزاقوں کے روپ میں دکھایا گیا، جو امداد چراتے ہیں اور رضاکاروں کو سزا دیتے ہیں۔
فرانس نے بھی اپنی محتاط سفارتی زبان کے باوجود اس واقعے پر تشویش کا اظہار کیا، اور بائیں بازو کے اراکینِ اسمبلی نے فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ فرانس کا فرانس انبووپارٹی نے اس عمل کو بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
غزہ میں اس مجرمانہ اقدام کو خاموشی سے قبول نہیں کیا گیا۔ اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” اور اسلامی جہاد نے واقعے کی شدید مذمت کی۔ حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ
"یہ ایک ریاستی دہشتگردی ہے، ان رضاکاروں پر حملہ جنہوں نے صرف انسانی ہمدردی کے جذبے سے کام لیا۔ اس عمل نے واضح کر دیا کہ غزہ تنہا نہیں، اور انسانیت کا ضمیر اب بھی قابض فسطائی حکومت کے خلاف زندہ ہے”۔
اسی وقت ایک اور کارواں "قافلہ صمود” تیونس سے غزہ کے لیے زمینی راستے پر روانگی کی تیاری میں ہے۔ یہ کارواں لیبیا اور مصر کی سرزمینوں سے گزرتے ہوئے غزہ پہنچے گا، ساتھ لائے گا ہزاروں رضاکار اور امدادی سامان۔ مغرب، یورپ اور امریکہ سے آنے والے ان رضاکاروں کا ایک ہی پیغام ہے: اب محاصرہ ناقابل قبول ہے اور خاموشی خود ظلم میں شراکت داری ہے۔
شاید میڈلین کو سمندر میں قید کر دیا گیا ہو مگر اس کا پیغام ہر اس دل تک پہنچ چکا ہے جہاں انسانیت زندہ ہے۔ اس کشتی نے یہ ثابت کر دیا کہ محاصرہ صرف خوراک سے نہیں توڑا جاتا، بلکہ سچائی کے ذریعے اور اس جذبے کے ذریعے توڑا جاتا ہے جو صرف نعرہ نہیں، عمل میں جھلکتا ہے۔
میڈلین کشتی کا صبر آزما اور مشقت طلب سفر کرنے والوں نے ثابت کیا کہ جب تک سمندر آزاد ہے، جب تک ضمیر زندہ ہے، جب تک کوئی میڈلین زندہ ہے غزہ کبھی بھی تنہا نہیں رہے گا۔