حماس کا واضح مذاکراتی موقف مستقل جنگ بندی اور صہیونی فوج کا انخلاء اولین ترجیح
حماس کی بنیادی شرائط میں جنگ کا مکمل خاتمہ، صہیونی فوجیوں کی غزہ سے مکمل واپسی، محاصرے کا خاتمہ، علاقے کی تعمیر نو کا آغاز، اور قیدیوں کا ایک منصفانہ تبادلہ شامل ہیں۔
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے اپنے سینئر رہنما خلیل الحیہ کے ذریعے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ تنظیم فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ اور غزہ میں جاری صہیونی جارحیت کے خاتمے کے لیے سنجیدہ مذاکرات کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر اپنے پیغام میںحماس کےمذاکرا تی سربراہ خلیل الحیہ نے اس بات پر زور دیا کہ حماس کا حتمی مقصد ایک پائیدار اور مستقل جنگ بندی کا قیام اور غزہ کی پٹی سے قابض صہیونی افواج کا مکمل انخلاء، اور محصور فلسطینی آبادی تک بغیر کسی رکاوٹ کے انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔
خلیل الحیہ نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ممکنہ معاہدے کے لیے حماس کی بنیادی شرائط میں جنگ کا مکمل خاتمہ، صہیونی فوجیوں کی غزہ سے مکمل واپسی، محاصرے کا خاتمہ، علاقے کی تعمیر نو کا آغاز، اور قیدیوں کا ایک منصفانہ تبادلہ شامل ہیں۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ حماس نے ثالثوں (قطر، مصر، امریکہ) کی جانب سے پیش کردہ مختلف تجاویز پر ہمیشہ مثبت اور لچکدار رویہ اپنایا ہے، لیکن اس کت براعکس صہیونی حکومت جنگ کو طوالت دینے اور مذاکرات کو مسلسل سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مذاکراتی عمل پر بات کرتے ہوئے، الحیہ نے مزیدکہاکہ ہم نے حالیہ تجاویز کو مسترد نہیں کیا، بلکہ ان میں ایسی ترامیم پیش کی ہیں جو ہماری عوام کے خلاف جارحیت کا مستقل خاتمہ یقینی بنائیں اور غزہ کا غیر انسانی محاصرہ ختم کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حماس ماضی میں بھی متعدد بار لچک کا مظاہرہ کر چکی ہے، لیکن صہیونی ریاست کی جانب سے مثبت جواب نہیں ملا۔
فلسطینی اتحاد کے حوالے سے، خلیل الحیہ نے حماس کی جانب سے آمادگی ظاہر کی کہ غزہ کی انتظامی ذمہ داریاں کسی بھی ایسی متفقہ فلسطینی قومی حکومت کے سپرد کی جا سکتی ہیں جس پر تمام فلسطینی دھڑے متفق ہوں۔ انہوں نے صہیونی قیادت پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
آخر میں، خلیل الحیہ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ محض بیانات اور مذمتوں سے آگے بڑھ کر قابض صہیونی جارحیت کو روکنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کرے۔ انہوں نے ان تمام قوتوںبشمول یمن کی تعریف کی جو فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہیں اور صہیونی قبضے کے خلاف مزاحمت کی حمایت کر رہی ہیں۔