(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) عالمی طاقتوں کی بے حسی، جو فلسطینی جانوں کی ناقدری پر خاموش ہیں، ایک بار پھر عیاں ہو گئی۔ بدھ کی رات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں قابض صہیونی ریاست کے مظالم روکنے اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی ایک کلیدی قرارداد امریکی ویٹو کی نذر ہو گئی۔
سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے چودہ اراکین، بشمول تمام مستقل و غیر مستقل ممبران، نے اس قرارداد کی حمایت کی، لیکن امریکہ تنہا مخالفت میں کھڑا رہا۔ اس ایک ویٹو نے لاکھوں فلسطینیوں کی زندگیوں کی پکار کو دبا دیا اور جلتے ہوئے غزہ کو مزید تباہی کی آگ میں جھونکنے کا راستہ ہموار کر دیا۔
یہ قرارداد سلامتی کونسل کے دس غیر مستقل اراکین نے پیش کی تھی، جو دو سالہ رکنیت رکھتے ہیں۔ قرارداد میں غزہ کی انسانی صورتحال کو””افسوسناک”اور "ہولناک” قرار دیتے ہوئے قابض صہیونی ریاست کے مظالم فوری بند کرنے اور انسانی امداد کی راہ میں موجود تمام رکاوٹیں بلا تاخیر اور غیر مشروط طور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ اقوام متحدہ اور اس کے امدادی اداروں کو مکمل اور محفوظ رسائی فراہم کرنے پر زور دیا گیا تاکہ متاثرہ فلسطینیوں تک خوراک، پانی، ادویات اور دیگر بنیادی ضروریات پہنچائی جا سکیں۔
لیکن امریکہ، جو انسانی حقوق کاعلمبردار ہونے کا دعویدار ہے، مسلسل اپنے ویٹو کو قابض اسرائیل کے خونی منصوبوں کے تحفظ کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ امریکہ نے ویٹو پاور استعمال کرکے صہیونی ریاست کو کھلی چھٹی دی ہو۔ اکتوبر 2023ء میں شروع ہونے والی موجودہ جنگ کے بعد سے امریکہ نے کئی بار ایسی قراردادوں کو مسترد کیا ہے جن کا مقصد غزہ میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور صہیونی جارحیت کے خلاف عالمی کارروائی تھا۔
ان ویٹو اقدامات نے نہ صرف امریکہ کے کھوکھلے دعووں کو بے نقاب کیا ہے بلکہ اس حقیقت کو بھی عیاں کر دیا ہے کہ عالمی برادری قابض اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی پر مجرمانہ طور پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔