وفد کی قیادت سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کریں گے، جبکہ ان کے ہمراہ مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی، اردن کے ایمن الصفدی، قطر کے محمد بن عبدالرحمن الثانی اور متحدہ عرب امارات کے عبداللہ بن زاید شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان کی شمولیت پر بھی مشاورت جاری ہے۔
یہ دورہ دراصل کئی ماہ قبل طے کیا گیا تھا، تاہم اس وقت کے حالات کے پیش نظر ملتوی کر دیا گیا تھا۔ مجدلانی کے مطابق اب یہ دورہ ریاست فلسطین اور فلسطینی قیادت کے ساتھ مکمل حمایت کے اظہار کے طور پر کیا جا رہا ہے۔ یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ عرب و اسلامی دنیا، غزہ میں قتل عام، مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں صیہونی اقدامات، اور اسرائیلی طرزِ عمل کو مسترد کرتی ہے۔
امریکی نیٹ ورک سی این این نے فلسطینی حکام کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ سعودی وزیر خارجہ کا یہ غیر معمولی دورہ مغربی کنارے پر غیر قانونی صیہونی قبضے کے 1967ء کے بعد سے اعلیٰ ترین سطح کا پہلا دورہ ہو گا۔ یہ عرب دنیا کی طرف سے فلسطینی عوام کے لیے بڑھتی ہوئی سیاسی اور سفارتی حمایت کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے ملاقات کے دوران وفد فلسطینی ریاست کے قیام، غزہ کی جنگ کے فوری خاتمے، اور بین الاقوامی امن کانفرنس کی تیاریوں پر تبادلہ خیال کرے گا۔ فلسطینی سفیر مازن غونیم کے مطابق یہ دورہ ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ فلسطینی کاز عربوں اور مسلمانوں کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
اسرائیلی حکام کو اس دورے سے مطلع کر دیا گیا ہے، جبکہ اسرائیلی تجزیہ کار شاول ایریلی کے مطابق یہ اقدام سعودی پالیسی میں بنیادی تبدیلی اور فلسطینی اتھارٹی کی طرف جھکاؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے بقول، غزہ پر جنگ کے آغاز کے بعد سے سعودی عرب کی فلسطینی قیادت کے لیے یہ سب سے مضبوط حمایت ہے۔
اس تناظر میں سعودی عرب دو ریاستی حل کی بھرپور حمایت کر رہا ہے اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرانے کے لیے عالمی سطح پر سفارتی کوششیں تیز کر رہا ہے۔ توقع ہے کہ فرانس اس موقف کی حمایت کرے گا، اور دونوں ممالک اگلے ماہ نیویارک میں ایک بین الاقوامی امن کانفرنس کی میزبانی کریں گے، جس کا مقصد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنا ہے۔
یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے اب تک 54,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور لاکھوں شہری بدترین انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ عرب وزارتی وفد کی رام اللہ آمد بین الاقوامی برادری کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ فلسطینی کاز کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔