(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ)غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جاری جارحیت اور انسانی امداد کی مسلسل بندش کے خلاف عالمی سطح پر سخت ردعمل سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔ برطانوی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اس نے لندن میں تعینات اسرائیلی سفیر زپی ہوٹویلی کو دفتر خارجہ طلب کیا ہے اور غزہ میں جنگی توسیع کے تناظر میں اسرائیل کے ساتھ جاری آزاد تجارتی معاہدے کے مذاکرات فوری طور پر معطل کر دیے ہیں۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے منگل کو پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے اقدامات ناقابل قبول ہیں، اور اس کے ساتھ مزید اقتصادی تعاون کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ انہوں نے کہا: "غزہ میں امداد کی 11 ہفتے تک بندش ایک ظالمانہ عمل ہے جسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔”
لیممی نے اس بات پر زور دیا کہ نیتن یاہو حکومت کی جانب سے جنگ جاری رکھنے، امداد روکنے اور سیاسی اشتعال انگیزی کی وجہ سے برطانیہ اسرائیل کے ساتھ 2030 کے دو طرفہ تعاون کے روڈمیپ پر بھی نظرثانی کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آبادکاری میں ملوث تین افراد اور چار اداروں پر بھی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
سویڈن کا مطالبہ: یورپی یونین اسرائیلی وزراء پر پابندیاں لگائے
دوسری جانب، سویڈن کی وزیر خارجہ ماریا مالمر اسٹینرگارڈ نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک یورپی یونین کے اندر اس اقدام کی قیادت کرے گا جس کے تحت غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف جرائم میں ملوث غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے وزراء پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا: "جب تک غزہ میں انسانی صورتحال میں نمایاں بہتری نہیں آتی، ہمیں محض بیانات سے آگے بڑھنا ہوگا۔”
یورپی موقف میں تبدیلی کی بازگشت
فرانس کے وزیر خارجہ جین نول باروٹ نے بھی یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان شراکت داری کے معاہدے پر نظرثانی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل انسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے غافل ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کیر سٹارمر، فرانسیسی صدر میکرون اور کینیڈین وزیر اعظم مارک کارنی نے ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل کو خبردار کیا کہ اگر انسانی امداد کو بحال نہ کیا گیا تو سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کی بوکھلاہٹ
اسرائیلی وزارت خارجہ نے برطانوی فیصلے پر طنزیہ انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "برطانوی مینڈیٹ 77 سال پہلے ختم ہو گیا تھا۔” اس بیان نے عالمی برادری میں مزید تشویش پیدا کر دی ہے، کیونکہ یہ سفارتی آداب کے برخلاف تھا اور غزہ میں جاری مظالم پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش تھی۔
فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا
اس تناظر میں، برطانوی پارلیمنٹ میں سکاٹش نیشنل پارٹی کے رہنما اسٹیفن فلن نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے باقاعدہ ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر برطانیہ واقعی انصاف کا خواہاں ہے تو وہ صرف بیانات تک محدود نہ رہے، بلکہ عملی اقدامات کرے۔
فرانسیسی وزیراعظم فرانسوا بیرو نے بھی تصدیق کی کہ فرانس، برطانیہ اور کینیڈا کی جانب سے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی مشترکہ کوشش جاری رہے گی اور یہ عمل "کسی صورت رکے گا نہیں”۔