(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غزہ کی جنوبی علاقوں میں ہنگامی صورتحال پر کام کرنے والی فلسطینی آپریشنز کمیٹی نے ایک مرتبہ پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے امدادی راہداری کھولنے اور انسانی امداد کی فراہمی کے دعوے محض جھوٹ اور فریب پر مبنی ہیں۔
کمیٹی کے مطابق، اب تک 83 دن گزر چکے ہیں لیکن غزہ کی سرحدی کراسنگز بدستور بند ہیں، اور اندرون غزہ لاکھوں فلسطینی خوراک، دوا اور بنیادی سہولیات سے محروم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
بدھ کے روز جاری بیان میں کمیٹی نے کہا کہ حالیہ دنوں میں صیہونی ریاست نے دعویٰ کیا تھا کہ انسانی اور طبی امداد غزہ میں داخل ہونے دی جا رہی ہے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ تمام امدادی ٹرک تاحال سرحدی کراسنگ پر روک دیے گئے ہیں۔ کسی ایک گاڑی کو بھی غزہ میں داخلے کی اجازت نہیں ملی۔
کمیٹی نے خبردار کیا کہ یہ تاخیر انتظامی یا تکنیکی نوعیت کی نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند صیہونی چال ہے، جس کا مقصد اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کو کمزور کرنا اور انسانی امداد کو اپنے سیاسی و عسکری مفادات کے تابع بنانا ہے۔
انکشاف کیا گیا ہے کہ کچھ نجی لاجسٹک کمپنیاں اب امدادی اداروں کو پیشکش کر رہی ہیں کہ بھاری معاوضے کے بدلے امداد کو غزہ میں منتقل کیا جائے گا، جس کے لیے فی ٹرک 1 لاکھ 30 ہزار شیقل تک کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ کمیٹی نے اس عمل کو انسانی ہمدردی کے اصولوں کی کھلی توہین قرار دیا ہے۔
آپریشنز کمیٹی نے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل پر فوری دباؤ ڈالیں تاکہ محاصرہ ختم کیا جا سکے اور محصور فلسطینیوں کو بنیادی حقوق تک رسائی دی جا سکے۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ دوا، خوراک، پینے کا پانی اور بجلی ناپید ہو چکے ہیں، اسپتال بند ہو رہے ہیں اور ہزاروں بیمار اور زخمی بغیر علاج کے زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے شفاف امداد کی فراہمی ضروری
کمیٹی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ تمام انسانی امداد صرف اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ اور غیرجانبدار اداروں کے ذریعے فراہم کی جائے تاکہ سیاسی یا مالی فائدے کے بغیر امدادی سامان صحیح ہاتھوں تک پہنچ سکے۔
روزانہ درجنوں شہادتیں، مکمل نسل کشی کا خطرہ
بیان میں شدید انتباہ دیا گیا کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری اجتماعی سزا، جبری نقل مکانی اور خوراک و پانی کی بندش کے باعث روزانہ درجنوں بلکہ سینکڑوں فلسطینی شہید ہو رہے ہیں۔ کئی خاندان صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں اور صورتحال تیزی سے مکمل انسانی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
عالمی قیادت کی جانب سے ردعمل: اب خاموشی نہیں چلے گی
اسی تناظر میں بین الاقوامی سطح پر بھی دباؤ بڑھنے لگا ہے۔ فرانس، برطانیہ اور کینیڈا کے رہنماؤں نے پیر کے روز متفقہ طور پر نیتن یاہو حکومت کو خبردار کیا کہ وہ غزہ میں جاری "ظالمانہ اقدامات” کے خلاف ٹھوس اقدامات سے گریز نہیں کریں گے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر اور کینیڈا کے رہنما مارک کارنی نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ وہ دو ریاستی حل کے فریم ورک کے تحت فلسطینی ریاست کے قیام کے حامی ہیں اور آئندہ اقوام متحدہ کی کانفرنس میں اس مقصد کے حصول کے لیے بین الاقوامی اتفاق رائے پیدا کرنے پر کام کریں گے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی کی توسیع ناقابل قبول ہے، کیونکہ فلسطینی عوام کو درپیش انسانی مصائب کی شدت ناقابل بیان ہے۔ تقریباً تین ماہ سے جاری مکمل ناکہ بندی نے لاکھوں افراد کو بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم کر رکھا ہے۔