(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) امریکی روزنامہ وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کی دوسری مدت کے آغاز میں مشرق وسطیٰ کا پہلا دورہ ایسے وقت میں شروع کیا ہے جب وہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کو اپنی پالیسیوں میں ثانوی حیثیت دے رہے ہیں، جو ماضی میں واشنگٹن کا قریبی ترین اتحادی تصور کی جاتی رہی ہے۔
یہ پالیسی موڑ ٹرمپ کی جانب سے ایران، یمن اور غزہ کے حوالے سے کیے گئے حالیہ فیصلوں کے بعد سامنے آیا، جنہوں نے تل ابیب میں سیاسی حلقوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور امریکہ و غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے باہمی تعلقات کے مستقبل پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
حماس کے ساتھ قیدیوں کی ڈیل، تل ابیب کو بائی پاس کر دیا گیا
ایک غیر متوقع قدم میں واشنگٹن نے اعلان کیا کہ غزہ میں حماس کے ہاتھوں قید آخری زندہ امریکی شہری کو ایک معاہدے کے تحت رہا کروایا گیا۔ حیران کن طور پر یہ معاہدہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی مشاورت کے بغیر ہوا، جس پر تل ابیب میں سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔
مبصرین کے مطابق، یہ واقعہ اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ نیتن یاہو اپنی قیدیوں کی بازیابی کے لیے مؤثر اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں، اور امریکی دباؤ میں آ کر کسی وسیع تر جنگ بندی معاہدے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
یمن میں جنگ بندی، مگر غیر قانونی صیہونی ریاست پر حملے بند نہیں
صورتحال مزید پیچیدہ اس وقت ہوئی جب امریکہ نے یمن کے خلاف فضائی کارروائیاں سات ہفتوں بعد یکطرفہ طور پر روکنے کا اعلان کیا، مگر اس معاہدے میں یمنی مزاحمتی گروہوں کو غیر قانونی صیہونی ریاست پر حملے بند کرنے کا پابند نہیں بنایا گیا۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب صنعاء سے ایک میزائل تل ابیب کے بن گوریون ایئرپورٹ پر فائر کیا گیا، جسے تل ابیب نے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔
ایران سے براہِ راست مذاکرات، یورینیم کی افزودگی پر نرمی کا عندیہ
اسی دوران، امریکہ نے ایران کے ساتھ جوہری پروگرام پر براہِ راست مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا اور صدر ٹرمپ نے یورینیم کی افزودگی پر نرمی برتنے کے امکان کا عندیہ بھی دیا، جو غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی اس امید کو توڑتا ہے کہ امریکہ ایران پر عسکری دباؤ بڑھانے کی اجازت دے گا۔
تل ابیب پر تجارتی محصولات کا اطلاق
ٹرمپ حکومت نے عالمی تجارتی پالیسیوں میں تبدیلی کے تحت غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی برآمدات پر 17 فیصد محصولات لاگو کر دیے ہیں، حالانکہ اسرائیل نے امریکی مصنوعات پر محصولات ختم کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔
امریکہ کی ترجیح "پہلے امریکہ”، شراکت داروں کی قیمت پر مفاداتی پیش رفت
وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق، صدر ٹرمپ کے رویے میں واضح تبدیلی سامنے آئی ہے۔ ان کی موجودہ پالیسیز "امریکہ پہلے” کے نظریے سے متاثر ہیں اور وہ اپنے ملک کے معاشی و اسٹریٹیجک مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں، چاہے اس کے لیے پرانے اتحادیوں کو پیچھے کیوں نہ چھوڑنا پڑے۔
معروف اسرائیلی تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ فار ڈیموکریسی کے سربراہ یوحنان پلیسنر کا کہنا ہے، "ٹرمپ کی پہلی اور دوسری مدت صدارت میں واضح فرق ہے۔ اب وہ غیر قانونی صیہونی ریاست کے صدر نہیں، بلکہ صرف امریکہ کے صدر ہیں۔”
غیر قانونی صیہونی ریاست کے سفارتی رابطے، بدلے ہوئے حالات کا اعتراف
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ تناؤ کو کم کرنے کے لیے اسرائیلی وزیر برائے اسٹریٹیجک امور رون ڈرمر نے واشنگٹن کا دورہ کیا اور امریکی حکام سے ملاقاتیں کیں۔ ایک اسرائیلی عہدیدار نے تسلیم کیا کہ اگرچہ ایران اور غزہ سے متعلق عمومی اتفاق موجود ہے، لیکن عملی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان ہم آہنگی ماضی جیسی نہیں رہی۔
اسرائیلی سکیورٹی تھنک ٹینک کے ماہر یوئیل جوزانسکی نے کہا، "امریکہ اب خطے میں ایسی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے جس میں غیر قانونی صیہونی ریاست لازمی کردار نہیں رکھتی۔”