(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وِٹکوف کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق پیش کردہ ابتدائی تجاویز کو امریکی حکام نے ناکافی قرار دیتے ہوئے ایک نئے حل کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب غزہ پر غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے حملوں کے باعث شدید انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔
غیر قانونی صیہونی ریاست اسرئیل کے معروف عبرانی اخبار Maariv کے مطابق، وِٹکوف کی تجویز میں تمام قیدیوں چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ کی رہائی اور جنگ کا مکمل خاتمہ شامل تھا، تاہم امریکی حکام اب ایک ایسے جامع اور طویل المدتی معاہدے پر زور دے رہے ہیں جو غزہ میں مکمل جنگ بندی کی بنیاد بن سکے اور جس پر حماس کو رضامند کیا جا سکے۔
پیر کو تل ابیب میں غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران، وِٹکوف نے ایک نئی تجویز پیش کی جس کا مقصد جنگ بندی کے لیے ایک واضح راستہ فراہم کرنا تھا۔
دوسری جانب، عبرانی اخبار Yedioth Ahronoth نے ایک سینئر اسرائیلی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ تل ابیب جزوی قیدیوں کی رہائی پر تیار نہیں اور چاہتا ہے کہ آدھے قیدی فوری رہا کیے جائیں جبکہ باقیوں کو کسی حتمی معاہدے کے بعد چھوڑا جائے۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری بات چیت کے دوران نیتن یاہو نے ایک اسرائیلی وفد کو مذاکرات کے لیے بھیجا ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ بات چیت صرف "فائر کے نیچے” یعنی حملوں کے دوران ہی کی جائے۔
اس دوران، امریکی ایلچی وِٹکوف نے تل ابیب میں غزہ میں قید افراد کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ امریکی ذرائع کے مطابق، وِٹکوف اور یرغمالیوں کے امور کے لیے خصوصی امریکی ایلچی ایڈم بوہلر منگل کو دوحہ پہنچ رہے ہیں تاکہ قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی پر آخری مرحلے کی بات چیت میں شامل ہوں۔
بوہلر نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی شہری ایڈان الیگزینڈر کی حماس کے ہاتھوں رہائی کے بعد، غزہ میں باقی 58 یرغمالیوں کی رہائی کا امکان بہتر ہو گیا ہے، لیکن غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کا مؤقف یہ ہے کہ یہ حماس کا یکطرفہ قدم ہے، جس کا کوئی عملی فائدہ نہیں۔
حماس نے نیتن یاہو کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کی رہائی کسی فوجی دباؤ کا نتیجہ نہیں بلکہ جاری ثالثی کی کوششوں کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “نیتن یاہو اپنے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں، جبکہ حقیقی حل سنجیدہ مذاکرات اور قیدیوں کے تبادلے میں ہے۔”
العربی الجدید کی رپورٹ کے مطابق، ایڈان الیگزینڈر کی رہائی دوحہ میں ہونے والے ان مذاکرات کا حصہ ہے، جن میں امریکہ بنیادی ثالث کے طور پر کردار ادا کر رہا ہے۔ ان مذاکرات کے تحت 40 دن تک جنگ بندی، مزید قیدیوں کی رہائی، اور انسانی امداد کے لیے راہداریاں کھولنے پر بات ہو رہی ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اس معاہدے میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے امداد کی تقسیم کو مخصوص علاقوں یا گروہوں تک محدود کرنے کا منصوبہ ختم کیا جائے، تاکہ تمام متاثرین کو مساوی انسانی امداد فراہم کی جا سکے۔