(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) فلسطین کے محصور علاقے غزہ میں مالیاتی بحران شدید تر ہو گیا ہے، جہاں بینکوں کی جانب سے الیکٹرانک اکاؤنٹس، مرچنٹ اور وینڈر اکاؤنٹس کے درمیان رقم کی منتقلی پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ ان پابندیوں نے نہ صرف عام شہریوں کو مالی معاملات میں مفلوج کر دیا ہے بلکہ کاروباری سرگرمیوں کو بھی سخت متاثر کیا ہے، جو پہلے ہی غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کی جنگ اور محاصرے سے تباہی کا شکار ہیں۔
یہ اقدامات فلسطینی مانیٹری اتھارٹی (PMA) کی اس پالیسی کے برخلاف ہیں جس میں شہریوں کو نقدی کی بجائے الیکٹرانک ادائیگیوں کی ترغیب دی گئی تھی۔ تاہم، حالیہ پابندیاں اس وقت سامنے آئیں جب بیرونِ ملک سے ہونے والے سائبر حملوں نے ہزاروں صارفین کو نشانہ بنایا، جنہیں جنگی حالات کے باعث ای والٹس اور آن لائن بینکنگ ایپس پر انحصار کرنا پڑا۔ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر کئی بینکوں نے فنگر پرنٹ اور دیگر شناختی سہولیات کو بھی محدود کر دیا ہے۔
غزہ چیمبر آف کامرس کے صدر عید ابو رمضان اور اقتصادی ماہرین نے ان پابندیوں کو موجودہ ہنگامی حالات میں غیر موزوں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کے دوران جب بیشتر بینکوں کی شاخیں بند ہیں، شہریوں کا انحصار الیکٹرانک ادائیگیوں پر بڑھ چکا ہے۔ انہوں نے مانیٹری اتھارٹی سے مطالبہ کیا کہ مالیاتی منتقلی کو آسان بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ روزمرہ ضروریات اور تجارتی سرگرمیوں کو جاری رکھا جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کی وجہ سے غزہ کی منڈیوں میں لیکویڈیٹی 55 فیصد سے زیادہ گر چکی ہے، جب کہ 80 فیصد بینک اکاؤنٹ ہولڈرز بنیادی اخراجات کے لیے بھی رقم نکالنے سے قاصر ہیں۔ بلیک مارکیٹ کا پھیلاؤ اور بوسیدہ کرنسی کے استعمال سے انکار جیسے مسائل نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ معاشی گھٹن مکمل مالیاتی تباہی میں بدل سکتی ہے۔