(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے گذشتہ روز ڈاؤننگ اسٹریٹ میں فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفیٰ سے ملاقات کے دوران مغربی کنارے کی صورتحال پر "شدید تشویش” کا اظہار کیا۔ اسٹارمر نے ملاقات کے دوران کہا: "ہمیں مغربی کنارے کی صورتحال سے نظریں نہیں چرا نی چاہئیں، جہاں غیر قانونی بستیوں اور تشدد نے سنگین خدشات پیدا کر دیے ہیں۔” یہ بات برطانوی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اجلاس کی تفصیلات میں کہی گئی۔
برطانیہ، جو غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کو غزہ میں جاری بدترین جنگی جرائم میں عسکری مدد فراہم کر رہا ہے لیکن اب سفارتی بیانات کے ذریعے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی اقدامات کے خلاف ہے۔ گذشتہ روز برطانوی وزیر اعظم نے فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفیٰ سے لندن میں ملاقات کے دوران مغربی کنارے میں صیہونی مظالم پر "تشویش” کا اظہار کیا — ایک ایسا بیان جو زمینی حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 سے اب تک مغربی کنارے میں غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی افواج یا اس کے مسلح آباد کاروں کے ہاتھوں کم از کم 921 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ اسی مدت میں فلسطینی مزاحمتی حملوں میں 33 اسرائیلی مارے گئے ہیں۔
اسٹارمر نے فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحاتی منصوبہ بندی کی حمایت کرتے ہوئے اسے "غزہ کی تعمیر نو کے لیے عرب لیگ کے طے شدہ منصوبے میں کلیدی” قرار دیا۔ یہ منصوبہ، جو عرب رہنماؤں نے مارچ میں منظور کیا، مصر کی تجویز پر مبنی ہے جس میں فلسطینی اتھارٹی کی غزہ واپسی اور ایک غیر جانبدار ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے ذریعے عبوری حکومت کی تشکیل کی بات کی گئی ہے۔
برطانوی حکومت نے کہا کہ اسٹارمر اور مصطفیٰ اس بات پر متفق ہیں کہ "حماس کو غزہ کے حکومتی انتظام میں کوئی کردار نہیں دینا چاہیے”۔ اسٹارمر، جن کی حکومت غزہ میں جاری نسل کشی میں صیہونی ریاست کی عسکری حمایت کے باعث سخت تنقید کا شکار ہے، نے دعویٰ کیا کہ برطانیہ "جنگ بندی کی بحالی اور انسانی امداد کے داخلے” کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
سال کے آغاز میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں فلسطین-برطانیہ پارلیمانی کمیٹی نے انکشاف کیا کہ غزہ میں صیہونی نسل کشی کی جنگ میں برطانیہ کا فوجی تعاون فیصلہ کن رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ برطانیہ نہ صرف ہتھیاروں کے لائسنس جاری کرتا ہے، بلکہ صیہونی جنگی ٹیکنالوجی خریدنے، مشترکہ فوجی مشقیں کرنے اور عسکری انفرااسٹرکچر میں تعاون کے ذریعے اس جنگ کا براہ راست معاون ہے۔