(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) منگل کے روز غیر قانونی صیہونی ریاست اسرئیل کے ایک سیاسی عہدیدار نے ان رپورٹس کی تردید کی جن میں کہا گیا تھا کہ غزہ کے محصور علاقے میں جنگ بندی کے مذاکرات میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔ یہ تردید ان مصری ذرائع کے بیانات کے بعد سامنے آئی ہے جنہوں نے پیر اور منگل کی درمیانی شب ایک "بڑی پیش رفت” کا ذکر کیا تھا جس سے کسی معاہدے تک پہنچنے کی امید ظاہر کی گئی تھی۔
دو مصری سکیورٹی ذرائع نے پیر کے روز رائٹرز کو بتایا کہ قاہرہ میں جاری مذاکرات میں خاطر خواہ پیش رفت ہو رہی ہے۔ ان ذرائع کا کہنا تھا کہ محصور غزہ میں طویل المدت جنگ بندی پر عمومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے، لیکن چند اہم نکات پر ابھی بھی اختلاف موجود ہے، جن میں سے ایک حماس کے عسکری ونگ القسام سے متعلق ہے۔ ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں ایک مصری وفد اور غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کا ایک وفد شامل ہے۔
عبرانی میڈیا نے اس غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے ایک نامعلوم ذمہ دار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس نے ان رپورٹس کو حقائق کے برخلاف قرار دیا، تاہم اس نے دعویٰ کیا کہ "غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل امریکیوں اور ثالثوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ ایک معاہدہ طے پائے” جس کے تحت غزہ میں قید صیہونی شہریوں کو رہا کرایا جا سکے، "لیکن اب تک کوئی معاہدہ طے نہیں پایا”۔ عبرانی چینل "کان” نے بھی ایک غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے اہلکار کے حوالے سے کہا کہ مذاکرات میں حماس کے ساتھ بنیادی اختلاف "تحریک کے مسلح ونگ کے خاتمے” کے گرد گھومتا ہے۔
وزیر برائے اسٹریٹیجک امور رون دیرمر کی قیادت میں ایک وفد نے گزشتہ روز قاہرہ کا دورہ کیا تاکہ مصری انٹیلیجنس کے سربراہ حسن رشاد کے ساتھ غزہ میں جنگ بندی پر بات چیت کی جا سکے۔ اس سے قبل مصری حکام نے حماس کے سینئر رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت کی نیت پہلے سے ہی پانچ سالہ جنگ بندی کے بدلے تمام صیہونی قیدیوں کی رہائی کے مجوزہ معاہدے کو مسترد کرنے کی ہے۔
گذشتہ روز عبرانی اخبار "یدیعوت احرونوت” نے رپورٹ کیا کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل اس تجویز کو مسترد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اخبار نے غیر نامزد صیہونی حکام کے حوالے سے بتایا کہ مذاکرات میں کوئی حقیقی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ان کے مطابق، غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل اس معاہدے پر راضی نہیں ہوگی اگر اس میں حماس کا غیر مسلح ہونا شامل نہ ہو۔ اس سے قبل، پیر کے روز ایک سیاسی صیہونی اہلکار نے صحافیوں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے رسمی طور پر پانچ سالہ جنگ بندی کے بدلے تمام قیدیوں کی رہائی کی تجویز کو مسترد کر دیا۔
مصری ذرائع نے "العربی الجدید” کو بتایا کہ حماس کا وفد جو ہفتے کی صبح قاہرہ پہنچا، ایک متبادل تجویز لایا ہے جس میں ایک جامع معاہدے کی بات کی گئی ہے جس کے تحت ایک ہی مرحلے میں تمام زندہ قیدیوں اور شہداء کی میتیں رہائی پائیں، جنگ کا مکمل خاتمہ ہو، اور غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے غزہ سے مکمل انخلا پر اتفاق ہو، جس کا ایک مختصر اور واضح شیڈول ہو اور امریکی انتظامیہ، مصر، قطر اور حالیہ عرصے میں ثالثی کے میدان میں داخل ہونے والی ترکیہ کی ضمانت شامل ہو۔
غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے اس تجویز کو مسترد کرنے کے ردعمل میں، صیہونی قیدیوں کے اہل خانہ کے فورم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "جیسا کہ پچھلی بار ہوا، ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوئی کہ صیہونی حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں۔ وزیر اعظم (نیتن یاہو) اور اس کے نمائندے صرف یہ بتاتے رہتے ہیں کہ وہ کیا نہیں کریں گے تاکہ مغویوں کو واپس لایا جا سکے، لیکن کسی بھی صورت میں وہ واضح منصوبہ پیش کرنے سے گریزاں ہیں۔”
فورم نے مزید کہا: "اس موقع پر ہم اس اعلیٰ سیاسی عہدیدار (اشارہ نیتن یاہو کی جانب) کے مشکور ہوں گے اگر وہ مغویوں کے اہل خانہ سے ملاقات کریں اور انہیں مذاکرات کی موجودہ صورتحال سے براہ راست آگاہ کریں، نہ کہ میڈیا کے ذریعے۔”