(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غزہ میں حالیہ دنوں کے دوران فلسطینی مزاحمت نے ایک بار پھر غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی زمینی دراندازی کے خلاف گھات لگانے کی حکمتِ عملی اختیار کر تے ہوئے صیہونی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ یہ صورت حال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو جنگ جاری رکھنے کے اپنے اصرار پر قائم ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ غزہ کو جزوی فتح کرلیا گیا ہے۔
18 مارچ سے شروع ہونے والی اس نئی مرحلے کی جنگ کے بعد سے فلسطینی مزاحمت کی عسکری تنظیمیں، بالخصوص حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے عمومی طور پر میدان میں نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ صرف چند مرتبہ راکٹ حملے کیے گئے، جن میں تل ابیب، عسقلان اور اشدود کو نشانہ بنایا گیا۔
تاہم، حالیہ دنوں میں متعدد اہم کارروائیاں دیکھنے میں آئی ہیں، جن میں نمایاں ترین "کسر السیف” کے نام سے بیت حانون میں کی گئی گھات لگی کارروائی ہے، جو دو مرحلوں پر مشتمل تھی۔ اس کے علاوہ، غزہ شہر کے مشرقی علاقے التفاح، اور جنوبی شہر رفح میں بھی کمین گاہوں کے ذریعے کارروائیاں کی گئیں۔
یہ کارروائیاں غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی فوجی قیادت میں تبدیلیوں کے تناظر میں ہو رہی ہیں۔ سابق آرمی چیف ہرزی ہالوی کی سبکدوشی اور ایال زامیر کے تقرر کے بعد، نیز بین الاقوامی عدالتِ انصاف کو مطلوب سابق وزیر دفاع یوآف گالانٹ کی جگہ نیتن یاہو کے قریبی یسرائیل کاٹز کے وزیر بننے کے بعد یہ سلسلہ جاری ہے۔
"القسام بریگیڈ” نے حالیہ کارروائیوں کی ویڈیوز بھی جاری کی ہیں، جن میں دکھایا گیا ہے کہ مزاحمت کاروں نے ایسے علاقوں میں گھات لگا کر حملے کیے جو پہلے مرحلے کی جنگ بندی کے باوجود غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے قبضے میں رہے، اور جنہیں "بفر زون” قرار دیا گیا تھا۔ ویڈیوز میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح مزاحمت کاروں نے ہلکے ہتھیاروں اور مقامی طور پر تیار کردہ اینٹی آرمَر ہتھیاروں سے مرد و خواتین صیہونی فوجیوں کو نشانہ بنایا، باوجود اس کے کہ ان کے وسائل محدود ہیں۔
القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے جمعہ کے روز کہا کہ "مجاہدین اب بھی شجاعانہ معرکوں میں مصروف ہیں، انہوں نے درست منصوبہ بندی سے گھات لگا رکھی ہے، اور دشمن کو ان کے منتخب کردہ وقت اور جگہ پر ہلاکت خیز حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے”۔ انہوں نے مزید کہا، "ہماری مہمات شمالی بیت حانون سے لے کر جنوبی رفح تک ایک فوجی معجزہ اور پوری امت کے نوجوانوں کے لیے دلیل ہیں”۔
ابو عبیدہ نے ٹیلیگرام پر اپنے پیغام میں اس عزم کا اظہار کیا کہ مجاہدین دفاعی کمین گاہوں میں مستعد ہیں اور فتح یا شہادت کے عہد پر قائم ہیں۔
یہ کارروائیاں ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے میڈیا میں ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ صیہونی فوج غزہ میں زمینی کارروائیوں میں توسیع کا ارادہ رکھتی ہے، کیونکہ حماس کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، اور حماس جنگ کے مکمل خاتمے کو کسی بھی معاہدے کے لیے بنیادی شرط قرار دے رہی ہے۔
ادھر قطر اور مصر کے ثالثی کردار ادا کرنے والے حلقے دونوں فریقوں (حماس اور غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل) کے درمیان خلا کو پُر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، تاہم حماس کسی بھی صورت میں غیر مسلح ہونے کے تصور کو مسترد کر چکی ہے۔
فوجی امور کے ماہر رامی ابو زبیدہ کے مطابق، "غزہ میں مزاحمتی سرگرمیوں کی واپسی واضح ہے۔ یہ بات ‘القسام بریگیڈ’ اور اسلامی جہاد کے عسکری ونگ ‘سرایا القدس’ کی جانب سے جاری بیانات میں نمایاں ہے۔ یہ تبدیلی اس بات کی غمازی ہے کہ مزاحمت کی حکمت عملی میں نیا موڑ آیا ہے، جس میں گوریلا جنگ کی طرز پر دشمن کو مسلسل تھکانے اور نشانہ بنانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔”
ابو زبیدہ کا کہنا ہے کہ حالیہ کارروائیوں کی نوعیت میں تنوع آیا ہے، جن میں براہِ راست جھڑپیں، اسنائپر حملے، بم نصب کرنے کی کارروائیاں، اور سرنگوں میں گھات لگانے کے حملے شامل ہیں۔ ان کا مقصد غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی فوج کو جانی و مالی نقصان پہنچانا ہے، اور یہ دکھانا ہے کہ مزاحمت اب بھی پوری صلاحیت کے ساتھ میدان میں موجود ہے، چاہے وسائل محدود ہوں۔
انہوں نے کہا کہ مزاحمتی کارروائیاں چھوٹے گروپوں کی صورت میں کی جاتی ہیں، جو درست نشانے کے ذریعے کم وسائل میں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں، اور یہ بات اس بات کا ثبوت ہے کہ مزاحمت کی قیادت نہ صرف لچکدار ہے بلکہ اعلیٰ درجے کی فوجی مہارت رکھتی ہے۔
دوسری جانب، اسرائیلی امور کے محقق محمد ہلسہ کا کہنا ہے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے فوجی ہلاکتیں اسرائیلی معاشرے میں دو طرفہ اثر ڈال رہی ہیں — ایک طرف جنگ کے مخالفین کی تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے، دوسری طرف شدت پسند دائیں بازو کا دباؤ بھی بڑھ رہا ہے جو نیتن یاہو کو سست روی کا الزام دیتے ہیں۔
ہلسہ کے مطابق، نیتن یاہو مزاحمت کی کارروائیوں کو بنیاد بنا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ "مشن مکمل نہیں ہوا” اور اسی کو بنیاد بنا کر جنگ جاری رکھنے کے جواز تلاش کر رہے ہیں، تاکہ کسی ممکنہ جنگ بندی یا سیاسی حل سے بچا جا سکے۔ ان پر سخت دباؤ ہے کہ وہ دائیں بازو کی حکومت کو برقرار رکھیں اور قیدیوں کے اہلِ خانہ کی طرف سے آنے والے دباؤ سے نمٹ سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اندرونی سطح پر خود صیہونی میڈیا بھی فوج کی سست پیش قدمی یا ناکافی طاقت کے استعمال پر سوالات اٹھا رہا ہے، جس سے یہ بحث جنم لے چکی ہے کہ کیا مزید طاقت کا استعمال کیا جائے یا موجودہ حکمتِ عملی کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے۔
ہلسہ کا ماننا ہے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی فوج اپنے نقصانات کا جواز پیش کرنے کے لیے غزہ میں اپنی فوجی موجودگی کو مزید بڑھا سکتی ہے، تاہم دائیں بازو کی طاقت کے فلسفے میں کوئی نرمی یا تبدیلی کی توقع نہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ نیتن یاہو نے تاحال زمینی کارروائی کے دائرے کو مکمل طور پر بڑھانے کا فیصلہ نہیں کیا، اور وہ مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھ کر قیدیوں کے خاندانوں کے دباؤ سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس امید میں کہ شاید حماس کسی جزوی معاہدے پر رضامند ہو جائے۔