(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیر خارجہ، گیڈون ساعر، نے عالمی عدالتِ انصاف پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے "ایک شرمناک ادارہ” قرار دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت عدالت کی ان کارروائیوں میں شرکت نہیں کرے گی جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں سے متعلق ہیں۔
ساعر نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا، "ہم نے اس تماشے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر کسی ادارے کو کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہیے، تو وہ (اونروا) اور اقوامِ متحدہ خود ہیں۔”
انہوں نے اقوام متحدہ پر الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ "(اونروا) نے سینکڑوں دہشت گردوں کو ملازمت دی، جنہوں نے قتلِ اسرائیل میں عام میں حصہ لیا۔
غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیر خارجہ نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتریس، پر بھی ان الزامات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ وہ اونروا میں ہونے والے ان واقعات سے باخبر تھے، مگر انہوں نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔
ساعر کا کہنا تھا کہ "غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل نے گوتریس کو ان خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا، مگر اس کے باوجود انہوں نے کچھ نہیں کیا۔”
واضح رہے کہ عالمی عدالتِ انصاف نے پیر کے روز ان سماعتوں کا آغاز کیا ہے جن میں یہ جائزہ لیا جائے گا کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل بین الاقوامی انسانی امداد کی فوری اور بلا رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنانے کی اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے یا نہیں۔ یہ کارروائی ایک بار پھر غزہ میں جاری بحران کو عالمی عدالت کے فورم پر لے آئی ہے۔
یہ سماعتیں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے گزشتہ سال کیے گئے مطالبے کے جواب میں ہو رہی ہیں، جس میں عدالت سے غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی قانونی ذمہ داریوں پر ایک مشاورتی رائے جاری کرنے کی درخواست کی گئی تھی، خاص طور پر اس وقت جب اس نے اقوامِ متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین (اونروا) کو اپنی سرزمین پر کام کرنے سے روک دیا۔
یہ درخواست ناروے کی جانب سے پیش کی گئی تھی، جس میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عدالت سے مشاورتی رائے مانگی — اگرچہ یہ رائے قانونی طور پر لازم نہیں، لیکن اس کی قانونی اور اخلاقی اہمیت ہے — کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی ان علاقوں میں کیا قانونی ذمہ داریاں بنتی ہیں جن پر وہ قابض ہے، خاص طور پر امدادی سامان کی فوری اور بلا رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنانے کے حوالے سے۔
یہ سماعتیں ایک ایسے وقت میں شروع ہو رہی ہیں جب غزہ میں انسانی امدادی نظام مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر ہے، کیونکہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل نے 2 مارچ سے خوراک، ایندھن، دوا اور دیگر بنیادی امدادی اشیاء کی ترسیل پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔