(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) برطانوی نشریاتی ادارے "بی بی سی” نے منگل کے روز ایک اعلیٰ فلسطینی عہدیدار کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ قطر اور مصر نے غزہ کے لیے ایک نیا امن منصوبہ پیش کیا ہے، جس میں پانچ سے سات سال تک کی طویل جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ شامل ہے۔ اس مجوزہ معاہدے کے تحت حماس غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے تمام زیرِ حراست افراد کو رہا کرے گی، جب کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل متعدد فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گی۔
عہدیدار کے مطابق، اس تجویز میں جنگ کا مکمل خاتمہ اور غزہ سے غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی مکمل پسپائی شامل ہے۔ مزید یہ کہ حماس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ غزہ کی انتظامیہ کسی متفقہ فلسطینی فریق کے حوالے کرنے پر آمادہ ہے، چاہے وہ مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی ہو یا کوئی نئی عبوری انتظامیہ جس پر قومی و علاقائی سطح پر اتفاق ہو۔
امریکی ویب سائٹ "اکسِیوس” کے مطابق، قطر کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی منگل کو واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف سے ملاقات کریں گے، جس میں غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال متوقع ہے۔
دریں اثناء، مصری ذرائع نے "العربی الجدید” کو بتایا ہے کہ اتوار کی شب ایک وفد غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل سے قاہرہ پہنچا، جس نے پیر کے روز مصری انٹیلیجنس کی ثالثی ٹیم سے ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق، وفد بعض مخصوص افراد کی رہائی میں دلچسپی رکھتا ہے، جن میں وہ افراد شامل ہو سکتے ہیں جن کے پاس امریکی شہریت ہے۔ ذرائع نے امکان ظاہر کیا ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے دباؤ کے باعث یہ دورہ عمل میں آیا، اور آئندہ چند روز میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔
گزشتہ ہفتے حماس کے غزہ میں سربراہ خلیل الحیہ نے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ ان کی تحریک ایک جامع ڈیل کے لیے تیار ہے، جس میں تمام زیرِ حراست افراد کی رہائی، متفقہ تعداد میں فلسطینی قیدیوں کی آزادی، مکمل جنگ بندی، غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کا غزہ سے مکمل انخلاء، تعمیر نو کا آغاز اور محاصرہ ختم کرنے جیسے نکات شامل ہوں۔
واضح رہے کہ جنوری میں طے پانے والا جنگ بندی معاہدہ اس وقت ختم ہو گیا تھا جب 18 مارچ کو غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل نے غزہ پر دوبارہ حملے شروع کر دیے۔ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اس تباہ کن جنگ میں اب تک 51 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 1 لاکھ 17 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔