(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) "فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ” کا عہدہ کبھی بھی آسان نہیں رہا، خاص طور پر جب بات ان علاقوں کی ہو جو 1967 سے غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ اقوام متحدہ نے یہ عہدہ 1993 میں اس وقت تخلیق کیا تھا جب "اوسلو معاہدے” کی امیدیں قائم تھیں، جس میں اس قبضے کے خاتمے اور فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا۔
تاہم، آج تک یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ اس عہدے پر اب تک آٹھ نمائندے کام کر چکے ہیں، جن میں حالیہ نمائندہ فراننسسکا البانیز ہیں، جنہیں مئی 2022 میں منتخب کیا گیا۔ ان کا دورِ کار غیر معمولی اور خطرناک ثابت ہوا، کیونکہ انہوں نے غزہ میں غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جاری نسل کش جنگ کے دوران خدمات انجام دیں، جس میں دسیوں ہزار فلسطینی شہید اور لاکھوں زخمی ہو چکے ہیں، اور غزہ کے باسی پچھلے ایک سال سات ماہ سے مسلسل بے گھر ہیں۔
البانیز نے اقوام متحدہ کے فورمز پر فلسطینیوں کی آواز بن کر اپنی جرات مندی کا ثبوت دیا ہے۔ وہ مغربی دنیا اور اقوام کی بے حسی پر شدید تنقید کرتی آئی ہیں۔ ان کے تیار کردہ اہم رپورٹس بین الاقوامی عدالتوں میں غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف مقدمات کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں شدید دباؤ، دھمکیوں اور بدنامی کی مہمات کا سامنا کرنا پڑا — بالخصوص پچھلے دو ماہ میں، جب بعض ممالک نے ان کی مدت میں توسیع کے خلاف مہم چلائی۔
"میری باتوں سے کئی مغربی ممالک کو تکلیف ہوئی”
البانیز نے عربی نیوز ویب سائٹ "العربی الجدید” کو دیے گئے اپنے پہلے عربی میڈیا انٹرویو میں کہا:
"میری مدت کے دوران زمینی حقائق اس قدر سنگین ہو چکے ہیں کہ اب غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کا قبضہ اور اس کی پالیسیاں عالمی قوانین کے کھلے انکار کے مترادف بن چکی ہیں۔ میں نے اپنی رپورٹوں میں خاص طور پر اس بے جا چھوٹ کی نشاندہی کی جو اسے کئی مغربی ریاستوں، مثلاً جرمنی، فرانس، کینیڈا، امریکہ اور ہالینڈ کی طرف سے دی جا رہی ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کی ملازم نہیں بلکہ ایک آزاد ماہر ہیں اور ان کی تمام تر خدمات رضاکارانہ ہیں۔ ان کا مشن جاری رہے گا کیونکہ ابھی بہت کام باقی ہے۔
"فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیا جائے”
البانیز نے واضح کیا کہ:
"قانونِ بین الاقوام کی رُو سے کوئی بھی ریاست قبضے کے نتائج کو تسلیم نہیں کر سکتی۔ فلسطینیوں کو مکمل آزادی، سرحدوں پر اختیار، وسائل، فضائی حدود اور زمین پر مکمل حق حاصل ہونا چاہیے۔”
"غزہ میں نسل کشی، مغربی کنارے میں خاموش نکبہ”
انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ اب تک فلسطین نہیں جا سکیں کیونکہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل نے انہیں "ناپسندیدہ شخصیت” قرار دے رکھا ہے، اور بن گوریون ایئرپورٹ یا دیگر راستوں سے داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
انہوں نے کہا:
"فلسطینیوں پر جاری حملہ مکمل اور منظم ہے — چاہے وہ غزہ میں ہوں یا مغربی کنارے میں۔ یہ ایک سست لیکن تسلسل سے جاری رہنے والی نسلی صفائی ہے، جو نکبہ 1948 سے لے کر آج تک مختلف شکلوں میں جاری ہے۔”
البانیز نے زور دیا کہ:
"غزہ پر بمباری اس وجہ سے شدت اختیار کر گئی کیونکہ فلسطینی وہاں سے نکلنے سے انکار کر رہے ہیں۔ وہ تباہی کے باوجود وہیں رہنے پر اصرار کر رہے ہیں۔ یہ ہٹ دھرمی غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے لیے ناقابل برداشت ہو گئی، اور یہی وجہ ہے کہ بمباری کا سلسلہ تیز تر ہوتا گیا۔”
انہوں نے وزیراعظم نیتن یاہو پر بھی سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ:
"غزہ میں اس تباہ کن جنگ کے پیچھے نیتن یاہو کے ذاتی سیاسی مفادات بھی کارفرما ہیں۔ اگرچہ اب خود اسرائیلی معاشرہ بھی اس کے خلاف بولنے لگا ہے، لیکن آوازیں اتنی مضبوط نہیں کہ نیتن یاہو کو اقتدار سے ہٹا سکیں۔”