(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد کے سابق سینئر اہلکار ڈیوڈ میڈن نے غزہ میں حماس کے ہاتھوں یرغمال اسرائیلیوں کی رہائی میں صیہونی وزیراعظم کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ حماس اس وقت لڑائی کے مکمل اور باقاعدہ خاتمے کی طرف سنجیدہ پیش رفت چاہتی ہے
صیہونی ریاست کے معروف عبرانی چینل 2 کو انٹر ویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ "ہمارے پاس وہ قیدی موجود ہیں جنہیں ان کی مرضی کے خلاف طویل عرصے سے رکھا گیا ہے۔ ہمیں ان کے حالات کے حوالے سے مسلسل شہادتیں موصول ہو رہی ہیں۔ ان کا درد اور بے بسی قابلِ برداشت نہیں رہی، اور یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے کو ایک بڑے اور جامع معاہدے کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔”
میڈن نے یہ بھی تسلیم کیا کہ "جنگ کے خاتمے” کے حوالے سے گزشتہ ایک سال سے ابہام موجود ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس اس وقت لڑائی کے مکمل اور باقاعدہ خاتمے کی طرف سنجیدہ پیش رفت چاہتی ہے۔
غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ نے بھی قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدے کو جلد حتمی شکل دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو کو خبردار کیا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدے کے لیے وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
دوسری جانب، وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کی حکومت معاہدے کے دوسرے مرحلے کے آغاز سے مسلسل گریز کر رہی ہے، اور مزید اسرائیلی قیدیوں کی رہائی چاہتی ہے بغیر اس مرحلے کی شرائط پوری کیے، خاص طور پر نسل کشی کو ختم کرنا اور غزہ سے مکمل انخلا۔
ذرائع کے مطابق، غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل نے حماس کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے بدلے مکمل جنگ بندی اور غزہ سے انخلا کے مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ نیتن یاہو حکومت صرف قیدیوں کی رہائی چاہتی ہے، مگر جنگ بند کرنے اور غزہ سے مکمل واپسی جیسے اہم نکات سے گریزاں ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے کی پہلی شقوں پر قائم ہے، اور جب تک غزہ میں قتل عام بند نہیں ہوتا اور غیر قانونی صیہونی افواج مکمل انخلا نہیں کرتیں، تب تک وہ مزید قیدیوں کی رہائی پر آمادہ نہیں۔
مارچ 2025 کے آغاز میں جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ، جو 42 دن جاری رہا، اپنے اختتام کو پہنچا۔ تاہم اس کے بعد غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل نے دوبارہ غزہ کے تمام راستے بند کر دیے اور انسانی امداد کی فراہمی روک دی۔ جنگ بندی کے دوران بھی صرف محدود مقدار میں امدادی سامان داخل ہونے دیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل خبردار کر رہی ہیں کہ غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانی بحران ایک ہولناک تباہی میں تبدیل ہو چکا ہے، جسے صرف فوری جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور غیر قانونی صیہونی ریاست کے مکمل انخلا کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔