(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) مصری جنرل اتھارٹی برائے اطلاعات کے سربراہ ڈاکٹر ضیاء رشوان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے حوالے سے جاری مذاکرات میں جلد ایک مثبت موڑ آنے والا ہے، جو مصر اور قطر کی مسلسل اور سنجیدہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔
مصر کے معروف اخبار القاہرہ الاخباریہ کے مطابق رشوان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مصر اور قطر مسلسل ان کوششوں میں مصروف ہیں جو فلسطینی کاز کے مفاد میں ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بخوبی جانتے ہیں کہ غزہ کے حوالے سے مذاکرات نہایت پیچیدہ ہیں اور وہ اس امر سے بھی آگاہ ہیں کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل اپنے مطالبات کی حدیں بڑھا رہی ہے۔
رشوان کے مطابق، صدر ٹرمپ نے موجودہ حملوں کے آغاز کے بعد سے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو کافی وقت دیا تاکہ وہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کروا سکیں، اور اب یہ مہلت اپنی آخری حدود کو پہنچ چکی ہے۔
رشوان نے انکشاف کیا کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کو اس وقت کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے، اور ان کا خیال ہے کہ حماس کی جانب سے غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے حالیہ تجویز پر ردِعمل جلد سامنے آ جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیتن یاہو کی حکومت معاہدے کے دوسرے مرحلے کے آغاز سے مسلسل گریز کر رہی ہے، اور مزید اسرائیلی قیدیوں کی رہائی چاہتی ہے بغیر اس مرحلے کی شرائط پوری کیے، خاص طور پر نسل کشی کو ختم کرنا اور غزہ سے مکمل انخلا۔ اس کے برعکس حماس نے معاہدے کی تمام شقوں پر مکمل عمل درآمد کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل نے جب سے غزہ میں اپنی نسل کش کارروائیاں دوبارہ شروع کی ہیں، سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید اور ہزار سے زائد کو زخمی کر چکی ہے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
مارچ 2025 کے اوائل میں جنگ بندی کے معاہدے کا پہلا مرحلہ، جو 42 دن تک جاری رہا، اپنے اختتام کو پہنچا۔ تاہم، اس کے بعد غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل نے ایک بار پھر انسانی امداد کی فراہمی کے تمام راستے بند کر دیے، حالانکہ جنگ بندی کے دوران محدود مقدار میں امداد کی اجازت دی گئی تھی۔