(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ)فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے رہنما نے غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے مجوزہ نکات کی تفصیلات بتائی ہیں۔
فلسطینی مزاحمتی تحریک کے ایک سینئر رہنما نے لبنان کے اخبار المیادین کو بتایا ہے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سے متعلق جو مجوزہ منصوبہ پیش کیا گیا ہے، اس کی اہم شقیں کیا ہیں۔
آج بروز پیر دیے گئے بیان میں رہنما نے وضاحت کی کہ اس مجوزہ منصوبے کے تحت 9 صیہونی قیدیوں اور ایک دوہری شہریت رکھنے والے صیہونی-امریکی فوجی عیدان الیگزینڈر کی رہائی شامل ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس منصوبے میں 45 دن کی مدت کے لیے تمام عسکری کارروائیوں کو روکنے، تجارتی راستوں کو کھولنے اور امداد کے داخلے کی اجازت دینے کی بات کی گئی ہے، تاہم ان تمام اقدامات پر غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی شرائط لاگو ہوں گی۔ اس کے علاوہ، مجوزہ منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ صیہونی فوج اپنی ان پوزیشنز پر واپس چلی جائے گی جہاں وہ 2 مارچ 2025 سے قبل موجود تھی — یعنی ایک جزوی انخلا۔
رہنما کے مطابق، اس منصوبے میں ایک دوسری مرحلے کی بات بھی کی گئی ہے، جس میں مستقل جنگ بندی، مکمل انخلا، حماس کے اسلحے کا مستقبل، اور غزہ کی حکمرانی جیسے موضوعات پر مذاکرات شامل ہوں گے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ منصوبہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی طرف سے حماس کو غیر مسلح کرنے اور اسے غزہ کی قیادت سے ہمیشہ کے لیے الگ کرنے کی کوشش کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
"یہ مجوزہ منصوبہ مزاحمت کے مطالبات پورے نہیں کرتا”
مذکورہ رہنما نے واضح کیا کہ حماس نے اس منصوبے کا ابتدائی جائزہ لینے کے بعد اسے غیر تسلی بخش قرار دیا ہے کیونکہ یہ نہ تو مستقل جنگ بندی کی ضمانت دیتا ہے اور نہ ہی غزہ سے مکمل انخلا کی۔
انہوں نے کہا کہ:”یہ منصوبہ جنگ بندی کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کرتا، بلکہ اس کا مقصد تدریجی انداز میں قیدیوں کا مسئلہ حماس سے چھین لینا ہے۔”
انہوں نے مزید تصدیق کی کہ:”حماس نے اس منصوبے کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا ہے، اور فی الحال اس کا بغور مطالعہ کیا جا رہا ہے۔”