(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غیر قانونی صیہونی ریاست میں غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے خلاف نہ صرف عالمی سطح پر مذمت کا سلسلہ جاری ہے بلکہ اب خود صیہونی فوج کے اندر سے بھی بغاوت کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ جنگی پالیسیوں کے خلاف بڑھتی مزاحمت نے صیہونی حکومت کو شدید دباؤ کا شکار کر دیا ہے، جب کہ معروف عسکری و دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر اریئیل ہایمان نے اسے ایک "نئے بحران کی شروعات” قرار دیا ہے۔
غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے "انسٹیٹیوٹ برائے قومی سلامتی”کے سربراہ برگیڈیئر ریٹائرد ڈاکٹر ہایمان نے اپنے بیان میں اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے غزہ میں جنگ روکنے کے لئے لکھے گئے خط پر کہا ہے کہ:
"مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ چیف آف اسٹاف اور فضائیہ کے سربراہ پائلٹس کے خط کو دبانے میں ناکام رہیں گے۔ برطرفیاں مسئلے کا حل نہیں، بلکہ مزید احتجاج کو جنم دیں گی۔”
انہوں نے انکشاف کیا کہ جیسے ہی چند پائلٹس کی برطرفی کی خبر سامنے آئی، انہیں فوراً آرمرڈ کور کے ریزرو اہلکاروں کی جانب سے دستخط کی دعوت ملی، جس کے بعد نیوی اور فوجی ڈاکٹروں کی جانب سے بھی کھلے خطوط کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
یہ ردعمل اس وقت سامنے آیا جب غیر قانونی صیہونی ریاست کی فضائیہ سے وابستہ ایک ہزار سے زائد ریزرو فوجیوں نے حکومت کے نام ایک کھلا خط جاری کیا، جس میں غزہ جنگ کے فوری خاتمے اور تمام یرغمالیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔ خط میں واضح طور پر کہا گیا کہ
"یہ جنگ قومی سلامتی کے لیے نہیں، بلکہ مخصوص سیاسی اور ذاتی مفادات کی خاطر لڑی جا رہی ہے۔”
یہی مؤقف فوجی ڈاکٹروں کی جانب سے بھی سامنے آیا۔ درجنوں ریزرو ڈاکٹرز نے غیر قانونی صیہونی ریاست کے وزیر دفاع، آرمی چیف اور میڈیکل کمانڈ کو لکھے گئے خط میں کہا کہ
"ہم نے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد ملک کے دفاع کے لیے خدمات انجام دیں، لیکن 550 روز گزرنے کے بعد ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ یہ جنگ ہماری نہیں، بلکہ کسی فرد واحد کی سیاسی بقا کی جنگ ہے۔”
اس احتجاجی تحریک کو مزید تقویت اس وقت ملی جب بدنام زمانہ انٹیلی جنس یونٹ ’یونٹ 8200‘ کے 250 سے زائد سابق اہلکاروں اور صیہونی بحریہ کے 150 سے زیادہ سابق اہلکاروں نے بھی ان خطوط کی حمایت کرتے ہوئے جنگ کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا۔
صورتحال اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے خط لکھنے والے فوجیوں کو "شدت پسند عناصر” قرار دیتے ہوئے ان کی برطرفی کی دھمکی دی۔ تاہم مبصرین کے مطابق، اس طرح کے اقدامات احتجاج کی لہر کو دبانے کے بجائے مزید بڑھا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ہایمان کے مطابق:
"اب یہ مسئلہ محض فوجی پالیسیوں کا نہیں، بلکہ غیر قانونی صیہونی ریاست کے اندر بڑھتی ہوئی سیاسی خلیج، عوامی بیزاری اور سچائی کی جستجو کا عکاس ہے۔”
یہ تمام پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست کی غزہ میں جارحیت اب اس کے اپنے اندر سے ہی چیلنج ہو رہی ہے، اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ مزید مجروح ہو رہی ہے۔