(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غزہ میں جنگ بندی اور حماس کے زیر حراست قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے بات چیت کے لیے غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے مذاکراتی وفد نے دوحہ روانہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ وفد "کام کی سطح” پر مذاکرات کے لیے دوحہ پہنچا ہے۔ صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق، نتن یاہو نے موساد، شاباک اور اسرائیلی فوج کے اعلیٰ حکام پر مشتمل اس وفد کو دوحہ میں مذاکرات جاری رکھنے کی اجازت دی ہے۔ اس بات چیت کا مقصد فائر بندی کے حوالے سے پیش رفت اور حماس کے زیر حراست افراد کی رہائی پر بات کرنا ہے۔
اسی دوران، حماس کا ایک وفد بھی دوحہ روانہ ہوچکا ہے، جس نے گذشتہ روز قاہرہ کا دورہ کیا تھا تاکہ مذاکرات کو دوبارہ متحرک کیا جا سکے۔ حماس کے رہنما موسٰی ابو مرزوق نے "العربی جدید” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جمعہ کو دوحہ میں فائر بندی پر بات چیت شروع ہو گی، اور ان کا ماننا ہے کہ اس بار بات چیت کے کامیاب ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ حماس کے ترجمان جهاد طہ نے بھی کہا کہ حماس کا وفد قاہرہ میں مصری، قطری اور ترک ثالثوں کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، اور اس کا مقصد اسرائیلی ریاست کی طرف سے عائد کی جانے والی نئی شرائط کو حل کرنا ہے، جو کہ فلسطینی عوام پر جاری حملوں کے تسلسل کو فروغ دے رہی ہیں۔
ذرائع کے مطابق، حماس اور مصر کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ کچھ متنازعہ نکات پر بات چیت کو عارضی طور پر مؤخر کر دیا جائے گا، اور ان نکات کو فائر بندی کے ابتدائی مرحلے کے بعد مزید مذاکرات کے دوران اٹھایا جائے گا۔ یہ اقدامات اس توقع کے تحت کیے جا رہے ہیں کہ امریکی صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 20 جنوری تک کسی معاہدے تک پہنچنے کا وقت دیا گیا تھا۔ اسرائیلی حکام نے حالیہ دنوں میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ مذاکرات میں مشکلات کا سامنا ہے، اور اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو نے فائر بندی کے مکمل خاتمے کی شرط پر اصرار کیا ہے، ساتھ ہی وہ حماس سے ان تمام قیدیوں کی فہرست بھی مانگ رہے ہیں جنہیں وہ رہائی کے لیے تیار ہیں۔