(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ)غاصب اسرائیل کو قائم کرنے والے صیہونیوںنے پہلے دن سے ہی فلسطین کی زمین کا انتخاب اس لئے کیا تھا کہ یہاں سے زمینی اور سمندری دونوں راستوں سے ایشیائی ممالک کی افریقی ممالک اور یورپی ممالک کی ایشیائی اور افریقی ممالک تک رسائی کو مکمل کنٹرول میں رکھا جائے
انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین پر سنہ1948ء میں عالمی استعماری قوتوں امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت مغربی حکومتوںنے ایک ناجائز ریاست اسرائیل کو قائم کیا تھا۔ یہ اسرائیل اس لئے قائم کیا گیا تھا تا کہ مغربی ایشیائی ممالک میں عالمی استعماری قوتو ں کے مفادات کی رکھوالی اور چوکیداری کا کام کرے۔ غاصب اسرائیل کو قائم کرنے والے صیہونیوںنے پہلے دن سے ہی فلسطین کی زمین کا انتخاب اس لئے کیا تھا کہ یہاں سے زمینی اور سمندری دونوں راستوں سے ایشیائی ممالک کی افریقی ممالک اور یورپی ممالک کی ایشیائی اور افریقی ممالک تک رسائی کو مکمل کنٹرول میں رکھا جائے اور سیاسی و معاشی اعتبار سے دنیا پر نو آبادیاتی نظام کی ایک نئی شکل صیہونیئزم کے ساتھ مخلوط ہو کر جاری رہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ دنیا پر تسلط اور حکومت کے اس خواب نے جہاں فلسطینی قوم کو ظلم و ستم کی چکی میں پیس کر رکھ دیا وہاں ان کو ان کے اپنے وطن سے محروم بھی کیا گیا اور آج بھی 76سال بیت جانے کے بعد فلسطینی قوم پر تمام ہی مغربی دنیا کی حکومتوں کی مدد سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا ناپاک وجود قتل عام اور نسل کشی کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ حالیہ غزہ جنگ میں ایک سال میں پچاس ہزار سے زائد معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی کی گئی ہے۔لاکھوں زخمی ہیں، دسیوں ہزار اپنے جسمانی اعضاء سے محروم ہو چکے ہیں۔ ہزاروں ہی ایسے ہیں جو ملبہ تلے دب چکے ہیں۔دسیوں ہزار بچے اور خواتین اس نسل کشی میں موت کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہیں ۔یہ سب کچھ غاصب اسرائیل کے ناپاک ہاتھوں سے امریکہ اور مغربی حکومتوں کی مدد سے انجام پارہاہے۔
فلسطین پر غاصب صیہونی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی صیہونیوں نے جہاں اپنے سیاسی ومعاشی عزائم کی بنیاد بنائی تھی وہاں ان کے سامنے مذہبی عنصر بھی موجود تھا لہذا اس لئے انہوںنے فلسطین سے مسلمان فلسطینیوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ عیسائی فلسطینیوں کو بھی ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور بعد ازاں مسلمانوں کے ساتھ عیسائیوں کو بھی نسل کشی کا شکار بنایا گیا۔آج بھی موجود حالات میں جہاں مساجد اسرائیلی جارحیت کا شکار ہو رہی ہیں وہاں فلسطین، شام و لبنان میں عیسائی عبادت خانے یعنی چرچ بھی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔
غاصب صیہونیوں نے اپنے مذہبی جھوٹے اور من گھڑت عقائد سے اپنے صیہونی آبادکاروں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ صیہونی ہی دنیا کی سب سے بہترین قوم ہیں اور اللہ کی پسندیدہ مخلوق ہیں تاہم باقی مخلوقات کو فلسطین کی زمین پر نہ تو رہنے کا حق ہے او ر نہ زندگی کا حق ہے۔ان کے نزدیک تمام ہی دیگر اقوام اور مذاہب کے ماننے والوں کو قتل کرنا اور ان کی نسل کشی کرنا جائز تصور کیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ جو اصل یہودی مذہب کےپیروکار ہیں ان کو بھی صیہونیوں کے ظلم و ستم کا شکار بنایا جاتا ہے۔
صیہونیوں کے من گھڑت مذہبی عقائد میں ایک عقیدہ نیل سے فرات تک اسرائیل کی سرحدوں کا معاملہ بھی ہے۔ جس پر ہمیشہ سے ہی صیہونیوں نے زور دیا ہے۔ جس وقت فلسطین پر صیہونی غاصبانہ تسلط قائم کیا گیا تھا اس وقت بھی صیہونیئزم کے بانیوں نے اس بات کی تکرار کی تھی کہ فلسطین پر قائم ہونے والی صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود صرف فلسطین تک نہیں ہے بلکہ اس کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہوں گی اور اس کو عظیم تر اسرائیل یعنی انگریزی میں گریٹر اسرائیل کہا جائے گا۔
گریٹر اسرائیل کے قیام کے لئے سنہ1948کے بعد سے ہمیشہ صیہونیوں نے کوشش جاری رکھی ہوئی ہے اور آخری کوشش ان کی داعش تھی جو شام و لبنان اور عراق میں اسلامی مزاحمتی تنظیموں کے مقابلہ میں نابود ہو گئی اور اس طرح ایک مرتبہ پھر صیہونیوں کو گریٹر اسرائیل بنانے میں ناکامی کا سامنا رہا۔آج بھی موجودہ جنگ کا پس منظر اسی طرح ہی ہے کہ پورے فلسطین کو خالی کرنے کے بعد غاصب صیہونیوں کا اگلا ہدف لبنان و شام و عراق ہیں تا کہ وہ اپنے من گھڑت مذہبی عقیدہ کے مطابق گریٹر اسرائیل کی تشکیل کویقینی بنائیں لیکن ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اس جنگ میں غاصب اسرائیل بری طرح ناکام ہو رہاہے۔
گریٹر اسرائیل کی حقیقت صیہونیوں کے نزدیک بہت زیاد ہ ہے۔ اسی وجہ سے صیہونی فوجیوں کے لباس پر جو نقشہ موجو دہے وہ گریٹر اسرائیل کا نقشہ ہے۔یہ نظریہ ہمیشہ سے صیہونیوں کے بانیوں کی طرف سے چلا آ رہا ہے۔
آخر یہ گریٹر اسرائیل کیا ہے اور اس کی سرحدوں کا تعین کہاں تک کیا گیا ہے ؟
غاصب صیہونیوں کی جانب سے بیان کردہ گریٹر اسرائیل میں پورے کا پورا فلسطین یعنی 100فیصد فلسطین، 100فیصد لبنان، 100فیصد ہی اردن، 70فیصد شام کے علاقہ جات، 50فیصد عراق کے علاقہ جات، 33فیصد سعودی عرب کے علاقہ جات ، 30فیصد مصر کا علاقہ ، 50فیصد کویت کا علاقہ شامل ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ علاقے ترکیہ کے بھی اس نقشہ میں شامل ہیں۔ ان سب کو ملا کر نیل سے فرات کا خواب پورا ہوتا ہے جسے صیہونیوں نے گریٹر اسرائیل کا نام دیا ہے۔
غاصب صیہونی حکومت اسرائیل سے تعلق رکھنے والا ایک لکھاری اور صحافی آوی لیپکن کہتا ہے کہ میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ اسرائیل کی سرحدیں لبنان سے سعودی عرب تک ہیں۔جس میں مکہ و مدینہ سمیت بحیرہ روم ، وادی سینا اور دیگر علاقہ جات شامل ہیں۔
اب اس گریٹر اسرائیل کے لئے دیکھئے کس طرح صیہونیوں نے استعماری حکومتوں کے ساتھ مل کر کام شروع کیا، سنہ 1917ء میں بالفور اعلامیہ کے ذریعہ فلسطین میں یہودیوں کو اجازت دی گئی کہ وہ فلسطین آئیں اور آباد ہو جائیں۔ فلسطینیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی زمینیں ان یہودیوں کو فروخت کردیں لیکن 31سال تک فلسطینیوں نے اس مسئلہ میں مزاحمت اختیار کی اور اپنی زمینوں کو فروخت نہ کیا۔صیہونیوں کی آبادکاری جاری رہی اور انہوں نے فلسطین کی زمینوں پر برطانیہ اور امریکہ کی مدد سے قبضہ جاری رکھا اور آخر کار سنہ1947ء میں اقوام متحدہ کے اعلان کے مطابق فلسطین کو تقسیم کردیا گیا حالانکہ فلسطینی اس تقسیم کے خلاف تھے۔اقوام متحدہ جو دنیا میں امن وامان کے قیام اور انصاف کی رسائی کے لئے بنائی گئی تھی دنیا کی سب سے بڑی ناانصافی اور چوری کی ذمہ دار بن گئی اور 55فیصد فلسطین کا علاقہ غاصب صیہونیوں کے لئے مختص کردیا گیا۔
اقوام متحدہ کے ہاتھوں سے فلسطین کے خلاف ہونے والی خیانت آج 2024ء میں یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب صرف غزہ اور مغربی کنارہ باقی ہیں باقی ماندہ پورے فلسطین پر غاصب صیہونیوں کا ناجائز تسلط قائم ہے۔اب صیہونیوں کا بنیادی مقصد ہے کہ وہ پورے کے پورے فلسطین جیسا کہ گریٹر اسرائیل کے لئے ان کو 100فیصد فلسطین پر تسلط چاہئیے اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں لیکن فلسطین کی مزاحمت نے اس ناپاک منصوبہ کی راہ میں بڑی رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔اب گریٹر اسرائیل کو قائم کرنے کے لئے یعنی باقی ماندہ ممالک کے علاقوں کو کنٹرو ل کرنے سے پہلے اسرائیل چاہتا ہے ک پہلے فلسطیں کو مکمل زیر تسلط لے اور پھر باقی ممالک کی طرف پیش قدمی کرے۔
خلاصہ یہ ہے کہ آج اگر غزہ اور لبنان لہولہا ن ہیں اور خطے کی حکومتیں ان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں تو پھر ان تمام حکومتوں کو یہ جان لینا چاہئیے کہ گریٹر اسرائیل کے طے شدہ نقشہ اور منصوبہ کے تحت اسرائیل ان عرب حکومتوں سے بھی اپنے معین کردہ اور بیان کردہ علاقوں کو چھین لے گا۔ لہذا موجودہ صورتحال میں غزہ میں فلسطینی قوم اور مزاحمت جس جنگ میں شریک ہے وہ جنگ صرف فلسطین اور غزہ کی نہیں ہے بلکہ یہ جنگ در حقیقت ان تمام عرب ریاستوں کے بقاء کی ہے جن کا ذکر غاصب اسرائیل نے اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبہ میں کر رکھا ہے۔اسی طرح آج اگر لبنان یا ایران یا عراق فلسطین کی حمایت میں غاصب صیہونیوں سے نبردآزما ہے تو ا س کا مطلب یہ ہے کہ یہ جنگ صرف ایران، عراق، اور لبنان کی بقاء کی نہیں ہے بلکہ یہ سعودی عرب اور کویت سمیت ترکی اور ہر اس حکومت و قوم کی جنگ ہے جس کے بارے میں غاصب اسرائیل نے گریٹر اسرائیل میں زمینوں اور حکومتوں کو ہڑپ کرنے کا ناپاک منصوبہ بنا رکھا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیش پاکستان