(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) حالیہ دنوں میں اسرائیل کے بہت سے سیاسی، سیکورٹی، میڈیا اور عوامی حلقوں نے قابض فوج کی طرف سے لبنانی حزب اللہ کے خلاف کیے جانے والے حملوں اور لبنان کے خلاف جارحیت کے تباہ کن نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے معروف عبرانی اخبار ماریو نے آج اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں صیہونی فوج کی غزہ اور لبنان میں "آپریشنل اور انٹیلی جنس کامیابیوں کے باوجود صحافیوں، سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اہلکار اور تجزیہ کاروں کے خیالات شائع کیئے ہیں جس میں انھوں نے لبنان پر اسرائیلی حملوں پر اپنے شدیدی تحقظات کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیل کے عسکری تجزیہ کار کارل ڈینل گاس نے کہا ہے کہ اگرچہ تہران نے لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں براہ راست حصہ بننے کے اپنے ارادے کا اعلان نہیں کیا تاہم اس کے باوجود اسرائیل نے امریکہ سے درخواست کی ہے کہ وہ ایران کو اس جنگ میں مداخلت سے روکے۔
انھوں نے کہا ہے کہ اگر ایران اس جنگ میں براہ راست داخل ہوتا ہے تو خطے کی صورتحال یکسر تبدیل ہوسکتی ہے۔
صحافی ملگوٹی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج لبنان میں متعدد مقامات پر شدید بمباری جاری رکھے ہوئے ہے جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے فوجی اہداف اور انفراسٹرکچر ہیں، ان حمولں کے ردعمل میں حزب اللہ بھی میزائل حملے کررہی ہے اور اب اس کے حملوں کا دائرہ کار شمالی علاقوں سے بڑھ کر تل ابیب تک ہوگیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار بین کیسپٹ کہتے ہیں کہ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ لبنان کے ساتھ جنگ شروع ہوئی ہے "کچھ بھی ختم نہیں ہوا” بلکہ یہ آغاز ہے کسی بھی لمحے کچھ غیر متوقع ہو سکتا ہے، جیسے کہ غلط وقت پر میزائل کا گرنا۔انھوں نے کہا کہ ایک میزایل صورتحال کو یکسر تبدیل کرسکتا ہے۔
اخبار نے لکھا کہ بین کیسپیٹ کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اس جنگ کو پورے اسرائیل میں پھیلنے سے قبل شمال کی طرف منتقل کرنے کی کوششیں کرے۔