(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) خوراک کی قلت ، تعلیمی اداروں کی بندش ، مسلسل بمباری سے موت کا خوف بچوں کی زندگیوں کو ناقابل بیان اثرات مرتب کررہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی اداراہ برائے بہبود اطفال (یونیسیف) کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے یونیسیف کے علاقائی دفتر کے میڈیا افسر سلیم اویس نے غزہ کے مختلف علاقوں کے دورے کے بعد دیئے گئے ایک انٹر ویو میں بتایا ہے کہ غزہ میں غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے 11 ماہ سے زائد عرصے سے جاری وحشیانہ بمباری اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے جاری تسلسل میں جو کچھ غزہ کے بچوں نے دیکھا محسوس کیا اور جن حالات کا سامنا کیا ہے اس کے بعد بہت سے بچے اب سونے اور اپنا بچپن سکون سے گزارنے کے قابل نہیں ہیں۔
اویس سلیم نے جس نے عالمی برادری سے اس جنگ کو روکنے اور غزہ کے متاثرہ بچوں کے مستقبل کی بحالی کے لیے مداخلت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے گزشتہ ہفتے دیر البلاح ، خان یونس اور غزہ کے دیگر شمال کے علاقوں کا دورہ کیا اوربچوں کی جو صورتحال دیکھی ہے وہ ناقابل بیان ہے ۔
انھوں نے کہا کہ میڈیا دمقبوضہ فلسطین کے محصور شہر غزہ کے حوالے سے جو کچھ رپورٹ کررہا ہے وہ "حقیقت کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے درحقیقت میں غزہ انتہائی تکلیف دہ صورتحال کا مشاہدہ کررہا ہے ، شہر کا انفرااسٹریکچر تباہ ہوچکا ہے اسکول کالجز، اسپتال ،سڑکیں ایسے تباہ ہوگئی ہیں جیسے یہاں کبھی کچھ تھا ہی نہیں”وہاں آپ بچوں کے درد کو محسوس کر سکتے ہیں یہ تباہ کن صورتحال انتہائی خطرناک ہے، اور یہ معاملہ غزہ کے بہت سے بچوں کے ساتھ ساتھ خاندانوں کے لیے بھی ناقابل برداشت ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ” غزہ کے بچوں تک انسانی بنیادوں پر امداد نہیں پہنچ رہی ” زندگی کی تمام ضروریات حتیٰ کہ بنیادی ضروریات ناپید ہوچکی ہیں اورصیہونی فوج کی جانب سے جاری وحشیانہ بمباری سے موت کا خوف 10 لاکھ سے زائد بچوں کی نیدیں چھین چکا ہے۔