(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) تیس اور اکتیس جولائی کی درمیانی شب ایران کے دارلحکومت تہران میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ اسماعیل ھانیہ کو ایک دہشت گردانہ حملہ میں شہید کر دیا گیا۔
انہیں اس وقت دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنی آرام گاہ میں تھے ۔ ان کے ساتھ ایک محافظ بھی شہید ہوا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ حملہ ایک خاص ٹیکنالوجی اور ڈرون میزائل کے ذریعہ اسماعیل ھانیہ کے کمرے میں کیا گیا جہاں وہ شہید ہو گئے۔ان کی شہادت کے بعد یقینی طور پر پوری دنیا میں بہت سے سوال جنم لے رہے ہیں۔ ایران کی خود مختاری پر بھی سوال اٹھ رہا ہے۔ کیونکہ دشمن نے صرف اسماعیل ھانیہ کو شہید نہیں کیا بلکہ ایران کی خود مختاری کی خلاف ورز ی کرتے ہوئے یہ حملہ انجام دیا ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ اسماعیل ھانیہ کو قتل کرنے میں امریکی و صیہونی حکومتوں کا ہاتھ کرفرما ہے۔ ٹھیک اسی رات کو لبنان کے دارلحکومت بیروت میں بھی ایک رہائشی عمارت کو اسی طرح کے ڈرون حملوں کا نشانہ بنا کر حزب اللہ کے ایک سینئر کمانڈر فواد شکر سمیت ایک ایرانی ایڈوائزر کو شہید کیا گیااور درجنوں زخمی ہوئے۔ٹھیک اسی وقت عراق کے علاقوں میں بھی حملے کئے گئے اور عراقی مزاحمت کتائب حزب اللہ کے پانچ کمانڈروں کو شہید کیا گیا۔
جہاں تک ایران میں ہونے والا حملہ کا تعلق ہے یہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب ایران کے نو منتخب صدر ڈاکٹر مسعود پزیشکیان کی تقریب حلف برداری تھی اور تقریب کے لئے 80 سے زیاد ہ ممالک کے سرکاری وفود اور اعلی شخصیات سمیت اسلامی مزاحمت کے اہم عہدیدار موجود تھے۔
ایسے وقت میں حملہ کرنے کا ایک مقصد شاید یہ بھی تھا کہ ایران کو یہ بتایا جائے کہ وہ فلسطین کی حمایت سے دستبردار ہو جائے اور نئے آنے والے صدر کو شدید دباؤ میں لیا جائے اور ساتھ ایران میں اندرونی طور پر تقسیم ایجاد کی جائے، کیونکہ ایران کے انتخابات سے قبل امریکی اور برطانوی حکومت کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ایران میں پزیشکیان مغربی دنیا کے ساتھ دوستی کریں گے لیکن ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اور اسرائیل اپنے اس مقصد میں کامیا ب ہوئے؟۔
اس سوال کا جواب اگلے ہی روز تہران میں شہید اسماعیل ھانیہ کی نماز جنازہ ہے جو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے پڑھوائی ہے اور لاکھوں ایرانیوں نے اس جنازے میں شرکت کے ذریعہ امریکہ اور اسرائیل کے اس مقصد کو ناکام کر دیا ہے۔ پوری ایرانی قوم ایک زبان ہو کر اسماعیل ھانیہ کے جنازے میں شریک ہے۔
ایک اوراہم بات جو امریکی و صیہونی دشمن کے مقاصد میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسماعیل ھانیہ کو تہران میں اس لئے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تا کہ ایک طرف فلسطین اور ایران کے درمیان باہمی تعلقات اور رشتہ کو کمزور کیا جائے اور ساتھ ساتھ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کو بھی ایران سے الگ کر دیا جائے لیکن نتائج اس کے برعکس سامنے آئے ہیں۔نہ تو حما س ایران سے علیحدہ ہو رہی ہے اور نہ ہی فلسطینی عوام کے دلوں سے محبت کم ہوئی ہے۔
شہید اسماعیل ھانیہ کی بیٹی نے اپنے سوشل میڈیا پر پیغام میں تمام عرب حکومتوں اور ان لوگوں کو آئینہ دکھایا ہے جو ایران کے خلاف منفی پراپیگنڈا کر رہے تھے۔ اور کہاہے کہ یہ ایران ہے جس نے ہمیشہ ہمیں سہارا دیا ہے جبکہ تم عرب فلسطین سے قریب ہوتے ہوئے بھی ہمیں اپنے ممالک میں آنے نہیں دیتے۔
شہید اسماعیل ھانیہ کی بیٹی نے ایران کو اسلام کا دارلحکومت قرار دے کر پوری دنیا کو پیغام دے دیا ہے کہ نہ تو فلسطینیوں کی محبت ایران سے کم ہو گی اور نہ ہی ایرانی عوام کی محبت فلسطینیوں سے کم ہو گی۔
میں یہاں پر یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ حقیقت میں قاتلوں نے اسماعیل ھانیہ کو تہران میں شہید کرکے بہت بڑی غلطی انجام دی ہے ۔کیونکہ آ ج سے اسماعیل ھانیہ ایرانی عوام کے عظیم شہداء کی فہرست میں شمار کئے جائیں گے ۔ یہ بات ایران اور فلسطین کے عوام کے درمیان تعلق کو مزید مضبوط کرے گی۔لہذا امریکی و صیہونی دشمن کے مقاصد میں دوسرا مقصد بھی ناکام ہو گیا ہے۔
خود امریکی مبصرین اور ماہرین ذرائع ابلاغ پر اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اسماعیل ھانیہ کے قاتلوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔جیسا کہ امریکی حکومت نے ایران کے کمانڈر قاسم سلیمانی کو بغداد میں ابو مہدی المہندس کے ساتھ نشانہ بنا کر غلطی کی تھی جس کا انجام بعد میں عراق اور ایرا ن کے عوامی اور حکومتی مضبوط تعلقات کی صورت میں سامنے آیا۔لہذا ایسا لگتا ہے کہ اب اسماعیل ھانیہ کے قتل س…
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان