(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) فلسطینی مزاحمت کاروں کے ہاتھوں صیہونی فوجیوں کی ہلاکت کےبعد اسرائیلی فوج میں انتہا پسند یہودیوں کی بھری کے قانون کے خلاف احتجاج پرتشدد جھڑپوں میں بدل گیا۔
غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی براڈکاسٹنگ کارپوریشن (آفیشل) اور معروف عبرانی اخبار یدیعوت احرونوت کے مطابق گذشتہ روز مقبوضہ بیت المقدس میں غاصب صیہونی افواج، پولیس کے ساتھ انتہا پسند حریدی یہودیوں کی ایک مظاہرے کے دوران پرتشدد جھڑپیں ہوئیں جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی جنہوں نے فوج میں بھرتی کرنے کی کوششوں کو مسترد کے ہوئے کہا ہے کہ نیتن یاہو اور حالیہ حکومت اسرائیل کے خلاف اقدامات کررہی ہے۔
احتجاج میں شریک ہزاروں حریدی ( انتہاپسند یہودی ) آبادکاروں نے وزیر برائے ہاؤسنگ، یتزاک گولڈنوف کی گاڑی پر حملہ کیا، اور ان پر "حریدیم” کو بھرتی کرنے کے لیے ملی بھگت کا الزام لگاتے ہوئے ان پر پتھراؤ کیا، ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور گھوڑوں پر سوار پولیس دستوں کا استعمال کیا ۔
منگل کے روز، صیہونی ریاست کی سپریم کورٹ نے اسرائیل میں انتہا پسند صیہونیوں کو فوج میں بھرتی کرنے کے قانون کو جو کہ اسرائیل میں برسوں سے ایک متنازع مسئلہ ہےپر متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ حریدی یہودیوں کو فوج میں بھرتی کیا جانا چاہیے۔
اسرائیلی غاصب وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کی بقا کا دارومدار دو مذہبی جماعتوں شاس اور یونائیٹڈ تورات یہودیت کی حمایت پر ہے جو عدالت کے فیصلے کا سب سے بڑا شکار ہیں۔
اسرائیل میں جہاں مذہبی جماعتیں حریدی یہودیوں کی بھرتی کی مخالفت کرتی ہیں، وہیں سیکولر اور قوم پرست جماعتیں اس کی حمایت کرتی ہیں۔ یہ نیتن یاہو کے لیے ایک ایسی پریشانی کا باعث بن گیا ہے جس سے ان کے حکمران اتحاد کو خطرہ ہے۔ حریدی اسرائیلی آباد کاروں کی تعداد کا تقریباً 13 فیصد ہیں، جو کہ تقریباً 9.9 ملین بنتے ہیں، وہ فوج میں خدمات انجام نہیں دیتے، اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی "اسرائیلی لوگوں کی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے تورات کا مطالعہ کرنے کے لیے وقف کرتے ہیں۔ "
واضح رہے کہ غزہ پر صیہونی ریاست کی جانب سے غزہ پر گزشتہ 7 اکتوبر سے جاری نسل کشی کی کارروائیوں کے دوران اور حزب اللہ کے ساتھ شمالی محاذ پر اسرائیلی فوجیوں کی غیر معمولی ہلاکتوں کے بعد اسرائیلی فوج اہلکاروں کی تعداد میں کمی کا شکار ہے۔