(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) ہمارے چار بنیادی مطالبات ہیں۔ غزہ میں مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کا غزہ سے مکمل انخلاء عمل میں لایا جائے۔ تمام بے گھر فلسطینیوں کوان کے گھروں کوواپسی کی اجازت دی جائے۔ قیدیوں کے تبادلے کے لیے حقیقی اور باوقار طریقہ طے کیا جائے اور اس کے بعدغزہ کی جنگ بنیادوں پر تعمیر نو شروع کی جائے۔
فلسطین پر قابض غیر قانونی صیہونی ریاست اسرئیل کے مظالم کے خلاف برسرپیکار اسلامی حماس سیاسی شعبے کے سینئر رکن اور غزہ میں جماعت کےنائب صدر خلیل الحیہ نے قطر کےنشریاتی ادارے کو دئے گئے انٹر ویو میں ایک بار پھر جماعت کے غیر متزلز مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ حماس صیہونی ریاست اسرائیل کے غزہ میں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر پہنچنے،جنگ اور جارحیت کے خاتمے کے لیے حقیقی اور سنجیدہ مذاکرات میں داخل ہونے کے لیے غیر معمولی لچک کا ظاہرہ کرچکی ہے اور تاحال اس پر قائم ہے ۔
انہوں نے کہا کہ حماس جنگ بندی کے حوالے سے اپنے دیرینہ اور اصولی مطالبات پر قائم ہے، ہمارے چار بنیادی مطالبات ہیں۔ غزہ میں مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کا غزہ سے مکمل انخلاء عمل میں لایا جائے۔ تمام بے گھر فلسطینیوں کوان کے گھروں کوواپسی کی اجازت دی جائے۔ قیدیوں کے تبادلے کے لیے حقیقی اور باوقار طریقہ طے کیا جائے اور اس کے بعدغزہ کی جنگ بنیادوں پر تعمیر نو شروع کی جائے۔
حماس ان مطالبات کو لے کراپنے ثالثوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیارہے تاکہ کسی ٹھوس معاہدے تک پہنچا جا سکے لیکن ان مطالبات سے دستبردار نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اب بھی سنجیدہ ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ثالث، قطری اور مصری بھائی امریکی انتظامیہ کے ساتھ کامیابی سے کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ اگر وہ اس معاہدے تک پہنچنے کے لیے قابض ریاست پر دباؤ ڈالتے ہیں تو حماس فلسطینی عوام لوگوں کے خلاف جنگ اور جارحیت کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو کے بیانات اس بات کی تصدیق ہیں جو ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ نیتن یاہو کی قیادت میں غاصب صیہونی حکومت جنگ بندی تک نہیں پہنچنا چاہتی اور نہ ہی حقیقی قیدیوں کا تبادلہ چاہتی ہے۔
الحیہ نے کہا کہ ہم کئی مہینوں سے کہہ رہے ہیں اور ہم نے ثالثوں سے کہا ہے۔ ہم نے سب کو بتایا ہے کہ اگر ہمارے پاس غزہ کی پٹی سے جنگ بندی اور جامع انخلاء کے لیے واضح متن اور واضح پیشکش ہو تو ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔