(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) ذاتی مفادات کے لئے غزہ میں جنگ کو طول دینے کے الزام پر جنگی کابینہ میں نمایاں اختلافات تھے جس کی وجہ سے حالیہ تین وزرا نے استعفے بھی دئے تھے۔
فلسطین پر قابض غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے نویں مہینے میں جنگی کابینہ میں شدید اختلافات کے باعث کابینہ کو تحلیل کردیا
واضح رہے کہ جنگی کابینہ کے اہم رکن اور سابق اسرائیلی آرمی چیف بینی گینٹز سمیت جنگی کابینہ کے دو ارکان نے پچھلے ہفتے استعفے دے دیے تھے۔ بینی گانٹز نے پہلے سے دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر غزہ جنگ کے حوالے سے مناسب فیصلے نہیں کئے گئے تو وہ آٹھ جون کے بعد جنگی کابینہ کا حصہ نہیں رہیں گے۔ تب سے نیتن یاہو کی حکومت جنگی و سیاسی دونوں اعتبار سے مشکلات میں گھر رہی ہے۔
نیتن یاہو کا اپنے وزیر دفاع یوآف گیلنٹ کے ساتھ اختلاف بھی شدید تر ہو چکا ہے اور وزیر اعظم کے دفتر نے وزیر دفاع کو بے شرم اور احمق جیسے القابات سے نوازا ہے۔
دوسری جانب نیتن یاہو کے انتہا پسند اتحادیوں نے حکومت کا حصہ رہتے ہوئے بھی حکومت کو خراب کرنے اور بالآخر حکومت چھوڑ دینے کی دھمکیاں دے رکھی ہیں۔ اس تناظر میں نتن یاہو کو پیر کے روز اپنی جنگی کابینہ ہی توڑنے کا اعلان کرنا پڑا ہے۔
اہم بات ہے کہ نیتن یاہو نے سات اکتوبر کے بعد تشکیل دی گئی اپنی جنگی کابینہ میں انتہا پسند جماعتوں کو رکنیت نہیں دی تھی۔ مگر اب ان کی طرف سے جنگی کابینہ میں وزیر بنائے جانے کے لیے دباؤ ہو سکتا ہے۔
اگر نیتن یاہو شدت پسند وزیر برائے قومی سلامتی بین گویر یا وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کو جنگی کابینہ میں نہیں لیتے تو اتحاد کو خطرہ اور اگر لیتے ہیں تو بین الاقوامی سطح سے سخت رد عمل کا خدشہ ہے۔
جنگی کابینہ کے دو ارکان بینی گانٹز اور آئزن کوٹ کے استعفوں سے جو دھچکا لگا تھا وہ مزید اثرات دکھا گیا ہے۔ نیتن یاہو کو جنگی کابینہ توڑنے کے بعد زیادہ انحصار اپنے ‘بے شرم’ وزیر دفاع پر کرنا ہوگا۔
حالانکہ ان کا دفتر اس سے پہلے کہہ چکا ہے یوآؤ گیلنٹ کو فارغ کر دینا چاہیے۔ دوسرا وزیر جو مشاورت کے لیے نیتن یاہو کو دستیاب ہو سکتا وہ سٹریٹجک امور کا وزیر ہے۔
تاہم اسرائیل کے جنگ میں پاؤں اکھڑے ہیں یا نہیں مگر جنگی حکمت عملی اور اندرونی اتحاد کے میدان میں نیتن یاہو گھٹنوں کے بل اگئے ہیں۔