(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) اسرائیل ثالثوں کے ذریعے حماس کے ساتھ مذاکرات میں کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کے درمیان غزہ پر جنگ جاری رکھنے کی ضد جاری رکھے ہوئے ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ مغویوں کو طاقت کے بل بوطے پر زندہ گھر واپس لانا اب تقریبا ناممکن ہے۔
غیر قانوی صیہونی ریاست اسرائیل کے عبرانی زبان کے ریسیٹ بیت ریڈیو نے گذشتہ روز اسرائیلی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے نامعلوم سینئر عہدیداروں کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ اسرائیل وزیر اعظم حماس کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچنے کے بدلے میں غزہ پر جنگ روکنے پر راضی نہیں ہوگا جس سے اسرائیلی قیدیوں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔
ریڈیو نے جاری رکھا کہ یہ موقف اسرائیلی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے متعدد اعلیٰ عہدیداروں کی رائے سےمتصادم ہے، جو اپنے نقطہ نظر سے اسرائیلی زیر حراست افراد کو رہا کرنے کی ضرورت کی روشنی میں اس قسم کے قدم کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں اور حماس کے ساتھ ایک معاہدے کی حمایت کرتے ہیں۔
عبرانی ریڈیو نے نامعلوم اسرائیلی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ قطری دارالحکومت دوحہ میں آئندہ ہفتے مذاکرات کی تجدید متوقع ہے جہاں حماس کے وفد کے علاوہ اسرائیلی وفد بھی حصہ لے گا ۔
ریڈیو نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف ہرزی ہیلیوی سے لے کر موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا، جنرل سیکیورٹی سروس (شاباک ) کے سربراہ رونن بارسمیت مختلف اسرائیلی سیکیورٹی رہنماؤں نے سیکیورٹی اسٹبلشمنٹ کے اجلا س میں شرکت کی ہے اور ایک معاہدے پر پہنچنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اجلاس میں وزیر دفاع، یوو گیلنٹ، اور وزراء بینی گانٹز اور گاڈی آئزن کوٹ نے کہا کہ ان سب نے اس معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا، اور یقین ہے کہ اس وقت سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے کئی اعلیٰ حکام بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر جنگ روکنے کی تجویز پر اتفاق ہو جاتا ہے تو ایسی صورتحال میں نیتن یاہو اقلیت میں ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ اگر اسرائیل کئی مہینوں کے بعد ضرورت پڑنے پر دوبار جنگ میں جانے کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو اس کی صلاحیت رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں 125 اسرائیلی زیر حراست ہیں جن میں اسرائیلی اندازوں کے مطابق 86 زندہ ہیں جب کہ 39 مردہ ہیں۔