(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) فلسطینی ریاست کے قیام کا منصوبہ امریکہ کا ایک ایسا دھوکہ ہے جو فلسطینی مزاحمتی دھڑوں کو اسرائیل کے خلاف جنگ بند کرنے اور اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرانے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش ہے۔
عرب سینٹر فار ریسرچ اینڈ پالیسی اسٹڈیز کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عزمي بشارا نے گذشتہ روز قطر کے شہر لوسیل سے "عرب ٹی وی” پر معروف امریکی اخبار "واشنگٹن پوسٹ” کی جانب سے امریکہ کے فلسطینی ریاست کے قیام کے منصوبے کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے فلسطینی ریاست کے قیام کے منصوبے کی خبریں فلسطینیوں کے لئے صرف دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں ہے واشنگٹن کا مقصد صرف عرب اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔
انھوں نے ایک مبہم اور غیر متعینہ فلسطینی ریاست کو بے معنی بات کے طور پر تسلیم کرنے کے امریکی منصوبے کے بارے میں مزید کہا کہ فلسطینی ریاست کےقیام اور حالیہ امریکہ منصوبے کے تناظر میں دیکھیں کہ کس طرح امریکہ کی جانب سے 4 جون 1967 کی سرحدوں پر ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے امریکی تصور کی جگہ ایک ایسی غیر قانونی صیہونی "ریاست اسرائیل ” کو تسلیم کر لیا گیا جس کی سرحدوں اور شکلوں کا ذکر نہیں کیا گیاتھا ، یہاں تک کہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کا حوالہ بھی نہیں دیا گیاتھا۔
رفح پر حملے کے حوالے سے اپنی توقعات کے بارے میں بشارا نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اسرائیل غزہ کے خلاف اپنی جارحیت اس وقت تک نہیں روکے گا ج ب تک وہ یہ نہ کہے کہ ہم نے غزہ شہر کے ہر مقام پر اپنے قدم جما لئے ہیں اور اس قتل عام میں امریکہ اسرائیل کے شانہ بشانہ ہے۔ انھوں نے اس مایوسی کا اظہار کیا کہ تل ابیب کے حکمران اب غزہ کے باشندوں کی وسطی اور جنوبی غزہ میں واپسی کی تجویز دے رہے ہیں جس کا واضح مقصد رفح کو فلسطینیوں سے خالی کرانا ہے۔
بشارا نے اندرونی فلسطینی مقامی سیاست کے حوالے سے الفتح تحریک کو مشورہ دیا ہے کہ وہ خود کو فلسطینی اتھارٹی سے الگ کرے اور ایک متحد فلسطینی قیادت کے قیام کے لیے مزاحمت کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے جو اسرائیلی اور امریکی حکام کی جانب سے پیش کردہ منصوبے کے خلاف منصوبہ بندی سے اس صیوہنی ریاست کا مقابلہ کرے جس کا قانونی کوئی وجود نہیں ہے۔