(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) نیتن یاہو کو گھر بھیجنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کا اتحاد ختم ہوجائے، پارلیمنٹ میں ان کے پاس 64 نشستیں ہیں جس میں سے صرف پانچ ارکان بھی منحرف ہوگئے تو نیتن یاہو کی حکومت ختم ہوجائے گی۔
غزہ پر صیہونی ریاست کی دہشتگردی نے 74 سالہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی قسمت کو داؤ پر لگا دیا ہے،ایک طرف لاکھو غیر قانونی صیہونی آبادکار ان کی رخصتی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف ان کی رخصتی کی بین الاقوامی خواہش کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں، لیکن 74 سالہ شخص کی مدت 2026 میں ختم ہو رہی ہے۔ انھیں حکومت سے بے دخل کرنے کے لیے قبل از وقت انتخابات کرانے کا کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ تاہم معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں چار ممکنہ راستوں کی نشاندہ کی ہے جو 2026 کا انتظار کیے بغیر نیتن یاہو کی معزولی کا باعث بن سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو اسرائیل جو پہلے ہی غزہ میں شکست و حزیمت اٹھا رہا ہے اس کا سنبھلنا مشکل ہوجائے گا۔
پہلا راستہ: اتحاد کو ختم کرنا
اخبار کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا تختہ الٹنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ ان کے اتحاد کو ختم کر دیا جائے جو کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) میں 64 نشستوں کے ساتھ حکومت کررہا ہے، صرف پانچ ارکان کے منحرف ہونے سے حکومت گرائے گی اور تین ماہ کے دوران نئے انتخابات کرانامجبوری ہو جائے گی گے۔
اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کیونکہ اس وقت حکومتی اتحاد میں ” انتہا پسند وزراء وزیر خزانہ بزلیل اسموٹریچ اور وزیر برائے قومی سلامتی اتمار بن گویر نے پہلے ہی نیتن یاہو کو دھمکی دی ہوئی ہے کہ اگر غزہ میں جنگ روکی گئی تو حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی جائے گی دوسری جانب اسرائیلی فوج چار ماہ سے طاقت کا بھرپور استعمال کرنے کے باوجود حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے کسی ایک قیدی کو بھی رہا کرنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے جس کے باعث اندرونی طورپر اور عالمی سطح پر نیتن یاہو پر بے پناہ دباؤ ہے کہ وہ حماس کے ساتھ مذاکرات کریں اور غزہ میں جنگ بندی کے بعد یرغمال اسرائیلیوں کو رہاکرانے میں میاب ہوں۔
اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ تاک میں بیٹھیں ہیں کہ اگر نیتن یاہو یرغمالیوں کو بچانے کیلئے غزہ جنگ بندی کے معاہدے پر راضی ہو جاتے ہیں تو قبل از وقت انتخابات کیلئے مداخلت کرسکتے ہیں۔
ٹریک ٹو: پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کا ووٹ
اخبار کے مطابق دوسرا راستہ عدم اعتماد کا ہے جو پیچیدہ ہے ، اس حوالے سے اسرائیلی چینل 12 کے ایک سیاسی تجزیہ کار، امنون ابرامووچ نے کہا، "حکمران جماعت لیکود کے کم از کم پانچ قانون سازوں کو موجودہ حکومت سے الگ ہو کر اپنی پارٹی کے اندر سے نیتن یاہو کے متبادل کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ لیکن اس آپشن کو لیکود پارٹی کے سیاست دانوں کے درمیان تقسیم اور نیتن یاہو کی ایک دوسرے کے خلاف حریفوں کو کھڑا کرنے کے ساتھ سیاسی مخمصوں کا سامنا ہے، اگر وہ نیتن یاہو کے خلاف جاتے ہیں تو سیاسی موت سے دوچار ہو جائیں گے۔
تیسرا راستہ: جنگی کونسل کے وزراء بینی گانٹز اور گاڈی آئزن کوٹ
اخبار کے مطابق متحدہ حکومت سے اپوزیشن کا اخراج جنگی کونسل کے وزراء بینی گانٹز اور گاڈی آئزن کوٹ قبل از وقت انتخابات کی تحریک کی قیادت کرنے کی کوشش میں جنگ کے وقت کی اتحاد کی حکومت سے دستبردار ہو سکتے ہیں لیکن چونکہ ان دونوں کے پاس اکثریت نہیں ہے، اس لیے ان دونوں میں سے کوئی بھی اکیلے نیتن یاہو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔گانٹز، جو اس وقت اسرائیل میں سب سے زیادہ مقبول سیاست دان ہیں، اخبار کے مطابق، اس بارے میں سب سے زیادہ متضاد تصور کیا جاتا ہے کہ آیا وہ حکومت چھوڑیں گے یا نہیں، جب کہ گینٹز کی پارٹی کے رکن آئزن کوٹ نے نیتن یاہو پر تنقید کے دوران زیادہ بے تکلفی کی۔ جنگ
چوتھا راستہ: عوامی دباؤ
اخبار کے مطابق چوتھا راستہ سب سے مضبوط اور مؤثر سمجھا جارہا ہے ، نتین یاہو کے خلاف گذشتہ 9 ماہ سے لاکھوں غیر قانونی صیہونی آبادکاراحتجاج کررہے ہیں جس میں غزہ میں حماس کے ہاتھوں یرغمالیوں کی رہائی کےمطالبے کی وجہ سے مزید اضافہ دیکھنےمیں آرہا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ عوامی دباؤ سب سے مضبوط راستہ ہے جس کے تحت نتین یاہو کی حکومت کو گرایا جاسکتا ہے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں سینٹر فار مڈل ایسٹ پالیسی کے ڈائریکٹر نیتن سیکس نے اخبار کو بتایا کہ مظاہرے جو سیاسی بائیں بازو سے بالاتر ہیں اور 7 اکتوبر کی ناکامیوں پر غصے کے ساتھ یرغمالیوں کے بارے میں تشویش کو یکجا کرتے ہیں "کسی وقت انتخابات کرانے کے لیے اتحاد پر حقیقی دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ ” دوسری جانب اخبار کے مطابق امریکی حکام نے نشاندہی کی ہے کہ دو ریاستی حل پر نیتن یاہو کے ساتھ براہ راست تصادم کے نتیجہ خیز نتائج برآمد ہونے کا امکان ہے، جو لیکود اور ملک کے اندر ان ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششوں میں رکاوٹ کے طورپر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
معروف اسرائیلی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ میں اسرائیلی دفاعی تجزیہ کار یوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اگر نیتن یاہو کی حکومت گر جاتی ہے تو اس کا براہ راست اثر غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں پر پڑے گا جس کے باعث اسرائیل جو پہلے ہی غیرمعمولی نقصان اٹھا چکا ہے اس کا سنبھلنا اب مشکل ہوجائے گا۔