(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) یہ تحریر خاص طور پر پاکستان کے عمومی حالات کے تناظر میں ہے, سات اکتوبر سنہ 2023کو جب طوفان اقصیٰ آپریشن کاآغاز ہوا تو دنیا بھر کی طرح پاکستان کے عوام بھی پر جوش نظر آ رہے تھے۔ جیسے ہی اگلے روز غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے غزہ پر سفاکیت شروع کی اور عام انسانوں کا قتل عام شروع کیا تو دنیا بھر کے عوام کی طرح پاکستان کے عوام کا جوش بھی ٹھاٹھیں مارنے لگا۔
کسی نے کہا کہ پاک فوج کو فوری طور پر جواب دینا چاہئیے، کسی نے کہا کہ ہمیں فلسطین بھیج دیا جائے اور ہم جہاد کریں گے، کسی نے مظاہرے کئے، بڑی سیاسی ومذہبی جماعتوں نے بڑی بڑی احتجاجی ریلیاں کیں جس میں ہزاروں افراد بھی شریک ہوئے۔ غرض یہ کہ ملک کے گوش و کنار میں جو جتنی سکت رکھتا تھا اس نے غزہ کے لئے آواز اٹھائی، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سمیت شوبز اور سول سوسائٹی کی تنظیموں اور وکلاء و ڈاکٹر کی تنظیموں نے بھی اپنے اپنے جذبات ک اظہار کیا۔ یقینا یہ فلسطین کے مظلوموں کا ہماری گردن پر حق ہی تھا کہ جسے ہم نے ادا کیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والوں نے فلسطین میں ہونے والے صیہونی و امریکی مظالم کے خلاف اپنے اپنے انداز سے آواز بلند کی۔
پہلے روز سے یہ خطرہ موجود تھا کہ جس طرح سے غبارے میں جھاگ بھری چکی جارہی ہے کہیں اچانک اسی طرح سے نکل نہ جائے۔یہ احساس بھی موجود تھا کہ کہیں سیاسی و مذہبی جماعتیں اور یہ تمام گروہ اور ادارے کچھ دنوں کے بعد اپنی اپنی معمول کی زندگی میں گم نہ ہو جائیں اور پھر فلسطین کا مسئلہ سات اکتوبر سے پہلے والی جگہ پر پہنچ جائے۔
بہر حال اب غزہ میں امریکی وصیہونی جارحییت کو ایک سو بیس دن یعنی پورے چار ماہ مکمل ہو چکے ہیں، 27 ہزار سے زائد معصوم انسانی جانیں قتل ہو چکی ہیں، رپورٹس کے مطابق صیہونی جارحیت میں قتل ہونے والے سترہ ہزار معصوم بچے ہیں۔بہت بڑی تعداد میں خواتین قتل ہوئی ہیں، بزرگ اور نوجوان ہیں۔ گھروں کو مسمار کر دیا گیا ہے۔ غزہ کا تمام انفرا اسٹرکچر چاہے وہ سرکاری ہو یا نجی سب کا سب تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ بائیس لاکھ کی اس غزہ پٹی میں سے اب بتایا جا رہا ہے کہ اٹھارہ سے انیس لاکھ لوگ بے گھر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسپتالوں کو بھی صیہونی بمباری میں تباہ وبرباد کر دیا گیا ہے۔ گویا امریکہ اور اسرائیل نے فلسطین کی غزہ پٹی میں منظم نسل کشی انجام دی ہے۔
آج فلسطین کی غزہ پٹی میں ایک اور انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ چار ماہ کے بعد بدلتے ہوئے موسم نے مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ موسم انتہائی سرد ہو چکا ہے۔ بارش اور طوفانی ہواؤں نے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے والے لاکھوں فلسطینیوں کی زندگی میں مصیبت در مصیبت پیدا کر دی ہے۔ امداد کے تمام راستے امریکی حکم پر بند ہیں، غزہ کی رفح کراسنگ کو بھی مصر نے امریکی حکم نامہ پر بند کر رکھا ہے۔ کسی قسم کی مکمل امداد فلسطینیوں تک پہنچانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
جس طرح غزہ میں موسم شدید سرد ہو چکا ہے۔ایسے ہی لگ رہا ہے کہ پاکستان میں بھی عوام کی فلسطین حمایت کا موسم سرد ہوتا جا رہا ہے۔ بڑی بڑی ریلیوں کے بعد اب چھوٹے چھوٹے مظاہرے بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔ عوام نے تو جو کچھ کرنا تھا کر لیا لیکن حکومت بھی یہاں سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ دو تین امدادی جہاز بھیج کر حکومت نے بھی سرد موسم کی طرح اپنے عمل کو سرد کر لیا ہے اور اب فلسطینی عوام کی حمایت کے لئے کوئی بیان بھی بڑی مشکل سے نظر آتا ہے۔
کچھ سیاسی جماعتوں نے تو جنگ کے گرم موسم میں بھی فلسطین کی بات کرنے کو گناہ کبیرہ سمجھا تھا۔جو آج سرد موسم میں تو سردی کا شکار ہو چکے ہیں۔وہ کس طرح فلسطین کے لئے کچھ بات کریں گے؟دوسری طرف فلسطین کے لئے کچھ نہ کرنے اور نہ بولنے والوں کے لئے عام انتخابات کی بہار کا موسم بھی آ پہنچا ہے۔ کیونکہ جو کچھ ابھی بویا جائے گا پھر اگلے پانچ سال اس کی وصولی بھی کرنی ہے لیکن غزہ کے لئے جو کچھ بویا جائے گا اس کا پھل فوری وصول ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔
بہر حال یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی حکومت اور اشرافیہ دونوں نے ہی عوام اور خاص طور پر فلسطین کے مظلوم عوام کو نا امید کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔حکومت نے تو آج کل فلسطین کے لئے بالکل ہی بر عکس پالیسی اختیار کرنے کی ٹھان رکھی ہے کہ جس میں امریکہ اور سعودی عرب کو خوش کرنا اور اسرائیل کے لئے راستہ بنانا ہے۔سیاسی جماعتوں کا حال تو پہلے ہی بتا یا جا چکا ہے کہ عام انتخابات میں تن من دھن کی بازی لگا رکھی ہے تو ان کے لئے تو ان حالات میں فلسطین کے لئے بات کرنا محال ہی لگتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی پالیسی بھی لگتا ہے کہ حکومت کی ایماء پر تبدیل ہو چکی ہے۔ پہلی دوسری تو کیا اب پورے پورے نیوز بلیٹن میں بھی فلسطین کی خبروں کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ بہت سے صحافی خواتین و حضرات فلسطین کے لئے سوشل میڈیا پر سرگرم عمل نظر آتے تھے وہ بھی شاید سرد موسم میں اپنے جذبات کو سرد کر بیٹھے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ موسم سرما کا سب سے زیادہ اثر پاکستان میں فلسطین کاز کے لئے ہوا ہے جبکہ باقی امور کے لئے تو بہار ہی بہار ہے۔
حالانکہ غزہ میں شدید سرد موسم ہے۔ شدید بارش بھی ہے۔ لاکھوں انسان بے یار ومدد گار بیٹھے ہوئے ہیں۔ خیموں اور پناہ گاہوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے۔ غزہ سمیت پورے فلسطین میں مسلسل بمباری بھی ہو رہی ہے۔ قتل بھی ہو رہے ہیں اور زخمی بھی ہو رہے ہیں۔ اسپتالوں میں علاج بھی نہیں ہے۔ امداد بھی نہیں ہے۔پینے کو پانی بھی نہیں ہے۔ کھانے کو ایک روٹی بھی میسر نہیں ہے۔ گرم کپڑے اور کمبل بھی نہیں ہے۔جن علاقوں میں بارش کا پانی جمع ہو مسلسل کئی دن سے زہر آلود بنتا جا رہا ہے اس کو نکالنے کا بندو بست بھی نہیں ہے۔بیماریاں پھیلنے کا خدشہ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔لیکن ہم سب اپنی اپنی زندگی میں کوش ہے اور ہر اس آسائش سے استفادہ کرنے میں مصروف ہیں جو غز ہ میں میسر نہیں ہے۔ کاش یہ تحریر ہمیں خود کو جھنجھوڑ دے اور ہم اپنی زندگیوں میں غزہ کے مصیبت زدہ عوام کا درد محسوس کریں اور موسم سرما کی سرما گیری کا شکار ہوئے بغیر اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے اسی گرم جوشی کا مظاہرہ کریں جو سات اکتوبر کو تھی۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان