(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) غزہ پرتین ماہ سے جاری اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں استعمال ہونے والا 70 فیصد سے زائد اسلحہ اور گولا بارود امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ ہے، فلسطینیوں کے قتل عام میں امریکہ برابر کا شریک ہے۔
امریکی وائٹ ہاؤس نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی کے حوالے سے اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی حکام کی جانب سے کہا گیا تھا کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت کو دباؤ کے طور پر استعمال کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کو غزہ میں فوجی کارروائیاں کم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی کے جائزے کے حوالے سے امریکی نیٹ ورک ’این بی سی‘ کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ "اسرائیل کا حق اور فرض ہے کہ وہ حماس کے خطرے کے پیش نظر اپنا دفاع کرے۔
بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی حفاظت کرے۔ اپنے شہریوں کی جانیں بچائے۔ اسی طرح ہم اسرائیل کی جنگ میں حمایت کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ہم سات اکتوبر سے اپنے دیرینہ اتحادی کے ساتھ ہیں اوراسے اسلحے کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں، ہم یہ کرتے رہیں گے ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے”۔
’این بی سی‘ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق یہ بات اس وقت سامنے آئی جب امریکی حکام نے کہا کہ جو بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل روکنے یا سست کرنے پر بات کر رہی ہے تاکہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر غزہ کی پٹی میں انسانی بنیادوں پر راہداری کھولنے اور فلسطینی شہریوں کو مزید امداد فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ وائٹ ہاؤس کی ہدایت پر پینٹاگان اسرائیلی درخواست کے مطابق ہتھیاروں کا جائزہ لے رہا ہے جو دباؤ کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں تاہم انھوں نے اشارہ دیا کہ کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ یہ ہتھیار پریشر پیپر ہیں اس بات چیت سے واقف حکام نے کہا کہ امریکا نے جن ہتھیاروں کی فراہمی پر تبادلہ خیال کیا ہے ان میں 155 ملی میٹر توپ خانے کے گولے، جوائنٹ ڈائریکٹ اٹیک بارودی مواد (JDAMs)، گائیڈنس کٹس ہیں جو نان گائیڈڈ بموں کو گائیڈڈ ہتھیاروں میں بدل دیتی ہیں شامل ہیں۔