(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کی جانب سے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے خلاف جاری طوفان الاقصیٰ آپریشن کو تقریبا بارہ ہفتے گزر چکے ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی آپریشن تھا جس کے اثرات ابھی تک غاصب صیہونی حکومت کے تزویراتی اداروں کی فہرست سے نکل نہیں پائے ہیں۔
سات اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ کے آغاز میں حماس اور اس کے ساتھ جہاداسلامی فلسطین کے جانبازوں نے غاصب صیہونی حکومت کے طاقت اور ناقابل تسخیر بھرم کو خاک میں ملاتے ہوئے زمینی، سمندری اور ہوائی راستوں کو استعمال کرتے ہوئے بیک وقت کئی مقامات پر صیہونی دشمن کو نشانہ بنایا اور سیکڑوں صیہونی فوجیوں اور انٹیلی جنس ماہرین کو گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
یقینی طور پر یہ آپریشن طوفان الاقصیٰ سات دہائیوں سے فلسطین کے عوام پر ڈھائے جانے والے صیہونی مظالم، قبضہ، ناجائز تسلط اور فلسطینیو پر ظلم سمیت مسجد اقصیٰ کے تقدس کی پائمالی اور بے حرمتی کا بدلہ لینے کے لئے جواب تھا۔شاید اسی وجہ سے ہی اس آپریشن کو طوفان غزہ کا نام نہیں دیا گیا بلکہ اسی طوفان الاقصیٰ کہا گیا۔
غاصب صیہونی حکومت کو اس آپریشن میں پہنچنے والے شدید ترین نقصان کے بعد غاصب اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کا اعلان کیاتھا۔اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے غزہ میں موجود بائیس لاکھ انسانوں کی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں جانی اور ایک جنگ مسلط کر دی۔تا دم تحریر غاصب صیہونی حکومت نے اب تک بائیس ہزار معصوم انسانوں کا قتل کیا ہے جن میں بارہ ہزار سے زائد معصوم بچے ہیں اور ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے۔
کچھ مغرب ذدہ ذہنیت رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ فلسطین کی مزاحمت کے خلاف امریکی و مغربی سرپرستی کے ساتھ صیہونی جارحیت برتری حاصل کر چکی ہے۔ حالانکہ حقائق اس کے بر عکس نظر آتے ہیں۔
لگ بھگ تین ماہ ہونے والے ہیں اور غاصب صیہونی حکومت اسرائیل مسلسل غزہ کے عوام کو قتل کرنے کی سفاک پالیسی پر عمل پیرا ہے۔اسرائیل نے معصوم اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف جدید ٹینکوں اور ہتھیاروں سمیت خطر ناک بموں کا استعمال کیا ہے۔ غزہ کا تمام انفراسٹرکچر بشمول شہریوں کی رہائش گاہیں تباہ کر دی ہیں۔واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایسے ہولناک اور ممنوعہ بموں کا استعمال بھی کیا گیا ہے جن پر پابندی عائد ہے اور یہ مہلک اور ممنوعہ ہتھیار اسرائیل کو امریکی حکومت کی جانب سے سپلائی کئے گئے ہیں۔
غاصب صیہونی حکومت نے رہائشی گھروں، اسکولوں، اسپتالوں سمیت اقوام متحد ہ کے اداروں کی عمارتوں کو بھی بمباری کا نشانہ بنا کر تباہ و برباد کیا ہے۔جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ بار ہ ہزار معصوم بچوں کو قتل کرنے والی یہی صیہونی حکومت ہے۔نوزائیدہ بچے بھی بڑی تعداد میں اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن چکے ہیں۔غزہ کے باسیوں کا مسلسل قتل عام جاری ہے۔لیکن سوال پھر وہی ہے کہ غزہ جنگ میں جیت کس کی ہو رہی ہے؟ کیااسرائیل کی جانب سے روا رکھے جانے والے تمام تر ظلم اور ستم کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ فتح اسرائیل کی ہو رہی ہے؟ ہر گز نہیں۔
ہر گز اس لئے نہیں کیونکہ زمینی صورتحال بالکل مختلف ہے۔ غزہ میں اسرائیلی فوج موجو دہے۔حماس اس جنگ کے میدان میں اسرائیلی فوج کو روزانہ کی بنیادوں پر جانی اور مالی نقصان پہنچا رہی ہے۔ حکمت عملی کے اعتبار سے فلسطینی مزاحمت کے جوان غاصب صیہونی فوج کے لئے ایک بھوت بن چکے ہیں۔جو نہ تو دکھائی دیتے ہیں اور نہ ان کی آواز سنائی دیتی ہے بلکہ اچانک نمودار ہوتے ہیں اور حملہ کرکے پھر منظر سے غائب ہو جاتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ ان مزاحمت کاروں کے پاس نہ تو باقاعدہ کسی ریاست کی مانند کوئی فوج ہے اور نہ کوئی بحریہ اور فضائیہ ہے او ر نہ ہی فوجوں کی طرح اسلحہ اور جدید گاڑیاں وغیرہ ہیں۔لیکن اس تمام تر صورتحال میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نوجوان مسلسل اسرائیل کی شکست کا باعث بن رہے ہیں۔
مزاحمت کے جوانوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ان حالات میں خاموش نہیں ہیں۔انہوں نے امن کے دنوں میں پہلے ہی زیر زمین سرنگوں کا ایک جال بنا رکھا ہے۔ان سرنگوں کی مدد سے وہ غزہ کی پٹی میں اسلحہ کی نقل و حرکت سمیت اپنے جوانوں کی نقل و حرکت کو انجام دے رہے ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت امریکہ اور مغربی حکومتوں کی تمام تر ٹیکنالوجی اور مدد کے باوجود اس نیٹ ورک کو پکڑنے میں ناکام ہے۔انہی سرنگوں میں ان مزاحمت کاروں نے اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ میزائل اور راکٹس بھی سنبھال رکھے ہیں جو ضرورت کے وقت پر استعمال کئے جاتے ہیں۔
حالیہ جنگ کے دوران جاری کی جانے والی ویڈیوز میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ فلسطین مزاحمت کے جوان کسی طرح نمودار ہوتے ہیں اور اچانک اسرائیل کے ٹینکوں اور فوجیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور پھر یکایک ہوا میں غائب ہو جاتے ہیں جیسے کوئی وجود ہی نہ تھا۔اگرچہ حماس اسرائیل پر جو راکٹ اور میزائل برساتی ہے وہ گھریلو ساختہ پروجیکٹائل ہیں جو اپنے ہدف تک درست طریقے سے پہنچنے کے لیے کوئی ریڈار سسٹم استعمال نہیں کرتے، لیکن ان میں سے بہت سے پراجیکٹائل کامیابی کے ساتھ بہت زیادہ مشہور آئرن ڈوم سسٹم میں داخل ہوئے اور مقبوضہ علاقوں خاص طور پر تل ابیب کے اندر گہرائی تک جا پہنچے۔
عام طور پر حماس اور جہاد اسلامی کے جوان اسرائیل کے خلاف جاری اپنی جوابی کاروائیوں میں گوریلا جنگ کے حربے استعمال کر رہے ہیں جو ان کی کامیابی کی اصل وجہ ہے۔
دوسری طرف غاصب صیہونی حکومت کا سردرد صرف حماس اور جہاد اسلامی نہیں ہیں جو فلسطین کے اندر مزاحمت کر رہے ہیں بلکہ فلسطین سے باہر بھی اسلامی مزاحمتی بلاک موجو دہے جو مسلسل غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے خلاف سرگرم عمل ہے۔شمال فلسطین کی طرف سے جنوبی لبنان میں لبنان کی طاقتور فورس حزب اللہ جسے لبنان کی اصل فوج بھی تسلیم کیا جاتاہے آٹھ اکتوبر سے مسلسل حما س کی مدد اورغزہ سے یکجہتی کے لئے غاصب صیہونی فوجیوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کی ان کاروائیوں کے بارے میں کہا ہے کہ یہ کاروائیاں شمال فلسطین میں اسرائیل کی فوج کو مصروف رکھنے اور ان کی طاقت کو بکھیرنے کے لئے ہیں تاکہ غزہ پرفوجی طاقت کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے۔اس صورتحال میں شمال فلسطین اور جنوبی لبنان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں موجود صیہونی آباد کاروں کی درجنوں بستیوں کو خالی کر دیا گیا ہے اور صیہونی آباد کار نقل مکانی کر گئے ہیں۔
اسی طرح فلسطین کے مغربی کنارے میں بھی مزاحمت کے آثار موجود ہیں اور اسرائیل فوج کو اپنی بڑی توانائی اس علاقہ میں بھی لگانا پڑ رہی ہے۔روزانہ کی بنیادوں پر مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج گشت پر مجبور ہے۔
اسرائیل کی سرپرست امریکی حکومت جو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہے اندرونی طور پر امریکی اداروں میں شدید مشکلات اور تناؤ کا شکار ہو چکی ہے۔
گذشتہ کئی ہفتوں سے فلسطینی کاز سے محبت رکھنے والے عراق اور شام کے مزاحمتی گروہوں کی جانب سے امریکی فوجی اڈوں پر چھاپہ مار کاروائیوں میں تیزی دکھائی گئی ہے۔اس صورتحال کے نتیجہ میں امریکہ میں عوام اور امریکی اداروں کے مابین وائٹ ہاؤس سے مطالبات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اقتصادی نقطہ نگاہ سے اگر بات کریں تو غاصب صیہونی حکومت اسرائیل غزہ کی جنگ میں بھاری قیمت ادا کر رہی ہے۔ماہرین اقتصادیات کی جانب سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اسرائیل کا سنہ2023 ء کا مالیاتی خسارہ 3.7فیصد ہونے والا ہے جو جنگ سے پہلے 1.1فیصد تخمینہ سے زیادہ ہے۔
حال ہی می غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے غزہ میں جاری جنگ کی مالی لاگت کا تخمینہ لگ بھگ 191بلین شیکل لگایا ہے جو کہ 51بلین ڈالر بنتا ہے۔مرکزی ادارہ شمارہات نے پہلے اندازہ لگایا تھا کہ غزہ کے تنازعہ کی وجہ سے تقریبا 750,000اسرائیلی افرادی قوت سے غیر حاضر تھے یہ اعداد و شمار اس کی افرادی قوت کا تقریبا 80فیصد ہے۔دوسری طرف جنگ کے شروع ہونے سے پہلے ہی ٹیکسوں کی آمدنی میں بڑے پیمانہ پر کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔
ان تمام باتوں سے زیادہ جو چیز غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو مزید پریشان کر رہی ہے وہ مقبوضہ فلسطین کے اندر اور باہر پوری دنیا میں عوامی احتجاج کا سامنا ہے۔
گذشتہ چند ہفتوں میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کے لئے یورپ، ایشیائی ممالک اور خاص طور پر غرب ایشیائی ممالک، امریکہ اور لاطینی امریکہ کے شہروں میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے مظاہرین کے بڑے بڑے ہجوم اور ریلیاں نکالی گئی ہیں۔ان تمام ریلیوں اور مظاہروں سے اسرائیل مخالف جذبات پیدا ہوئے ہیں اور غاصب صیہونی حکومت کی سفاکیت اور جرائم آشکار ہوئے ہیں۔دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے اسرائیل مخالف جذبات نے غاصب صیہونی حکومت اور اس کی دوست حکومتوں پر دباؤ دوگنا کر دیا ہے۔صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اپنے ہی صیہونی آباد کاروں کے لئے پر امن نہیں ہے۔
اسی طرح غزہ جنگ کے باوجود مقبوضہ علاقوں میں صیہونی آباد کار نیتن یاہو کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں، نیتن یاہو کے گھر کے باہر سیکڑوں افراد کئی ہفتوں سے جمع ہیں۔وہ نیتن یاہو کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ صیہونی آباد کاروں کی جانب سے غزہ جنگ کے باعث نیتن یاہو کو صیہونی آباد کارو ں خی سیکورٹی اور اسرائیل کی سیکورٹی کے لئے بڑا خطرا قرار دیا جا رہا ہے۔اسی طرح حماس کے پاس قید صیہونیوں سے متعلق درست انداز میں ڈیل نہ کرنے پر بھی نیتن یا ہو کو مورد الزام ٹہرایا گیا ہے اور صیہونی عوام کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہاہے۔
غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے لئے ایک اور بڑا مسئلہ یمن کے حوثی ہیں کہ جنہوں نے اسرائیل کے خلاف کھلا اعلان جنگ کر رکھاہے۔بہت سے مغربی مبصرین کو یمن کے حوثیوں کی جانب سے اسرائیل کو نقصان پہنچائے جانے کی صلاحیت پر شبہ تھا لیکن جب یمن کی مسلح افواج اور حوثیوں نے پہلے بحری جہاز کو نشانہ بنایا تو اس کے بعد عالمی سطح پر مبصرین کی رائے بھی تبدیل ہو چکی ہے۔
یمن کی جانب سے اسرائیل کے لئے جانے والے جہازوں کو قبضہ میں لینا اور اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنانا، اس تمام تر عمل میں اب تک غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور اس کی فوج کا رد عمل کیا ہے؟؟ ابھی تک کچھ نہیں ہے۔چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پارہے ہیں۔یمن کے بہادرانہ اقدامات نے اسرائیلی بحری جہازوں کو سمند ر میں لمبے راستے اختیار کرنے اور زیادہ ٹرانزٹ فیس ادا کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بحر احمر کو اسرائیل کے جہازوں کے لئے مکمل بند کر دیا ہے۔
اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اسرائیلی فوج دراصل غزہ میں نہتے شہریوں کو کیوں نشانہ بنا رہی ہے؟ کیونکی حقیقت میں اسرائیلی فوج بھی یہ بات جان چکی ہے کہ اس غزہ جنگ میں فلسطینی مزاحمت کے سامنے شکست کھا چکی ہے۔
آج تمام قسم کے تجزیہ نگار یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ مستبقل فلسطینیوں کا ہے اور طوفان الاقصیٰ نے نئے سیاسی افکار مرتب کر دئیے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ کامیابیا ں مسلسل فلسطینی مزاحمت کے حصے میں آ رہی ہیں اور فلسطین کی مزاحمت اور عوام ان کامیابیوں کے لئے بڑی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ دنیا بھر کے عوام فلسطینی عوام کی پشتبانی کریں اور فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں چاہے وہ فلسطین کے اندر حماس اور جہاد اسلامی ہوں، لبنان میں حزب اللہ ہو، عراق اور شام میں عوامی رضاکار فورس کے جوان ہوں یا پھر یمن کے حوثی انصار اللہ ہوں ان سب کی مدد اور حمایت جاری رکھنی چاہئیے۔یہ مزاحمتی تحریکیں ہم سے نہ تو اسلحہ اور پیسے مانگتے ہیں بلکہ صرف اور صرف اخلاقی حمایت درکار ہے اور اگر کوئی اخلاقی حمایت بھی نہیں کر سکتا تو پھر کم سے کم اسے خاموش رہنا چاہئیے اور فلسطین کاز اور مزاحمت کے خلاف زہر آلود باتوں سے پرہیز کرنا چاہئیے۔
ان تمام تر حالات اور واقعات کا مطالعہ کرنے کے بعد فیصلہ آپ خود کیجئے کہ آخر غزہ جنگ کا فاتح کون ہے؟
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان