(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) اسرائیلی عسکری تجزیہ کار کا کہان ہے کہ "سچ بتانا ضروری ہے، کہ اسرائیل آخری انجام کو پہنچ چکا ہے اور قیمتی وقت ضائع کر چکا ہے،”۔
غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے معروف عبرانی اخبار "اسرائیل ہیوم” اخبار میں عسکری امور کے تجزیہ کار، یوو لیمور نے اپنے انٹر ویو میں اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل نے حماس کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا اوراب تک وہ اسی خوش فہمی میں ہیں کہ وہ طاقت کے زور سے یرغمالیوں کو بازیاب کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے تاہم جنگ کے میدان سے آنے والی خبروں نے واضح کردیا ہےکہ دو ماہ سے جاری اس جنگ میں اسرائیلی فوج نے کوئی قابل زکر کامیابی حاصل نہیں کی ہے جبکہ حماس نے اسرائیلی فوج کو غیر معمولی جانی اور مالی نقصان پہنچایا ہے۔
انھوں نے گذشتہ روز اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور دیگر حکومتی عہدیداران کے درمیان یرغمالیوں کے اہل خانہ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کےحوالے سے بتایا ہے کہ وہ اہلخانہ کو کوئی حوصلہ افزا بات بتانے میں ناکام رہے جس کے بعد یرغمالیوں کے اہلخانہ نے ملاقات تلخ جملوں پر ختم کردی۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل پہلے ہی کافی وقت ضائع کرچکا ہے یہ بتانا ضروری ہے کہ اسرائیل غزہ میں طاقت کے زور پر یرغمالیوں کو رہا نہیں کرسکتا ہمارے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے جو آج کیا جاسکتا ہے وہ شاید کل ممکن نہیں رہے گا۔”
لیمور نے زور دے کر کہا کہ غزہ میں قیدیوں کے اہل خانہ اور جنگی کابینہ کے درمیان کل کی ملاقات ایک انتہائی مشکل ملاقات تھی کیونکہ وزیر اعظم اور وزراء کے پاس اہلخانہ کے سوالات کے جواب نہیں تھے حتٰی کہ اسرائیلی حکومتی عہدیدار اہلخانہ کو یہ بھی یقین دہانی کرانے کی پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ یرغمالیوں کی بازیابی کیلئے حکمت عملی ہی بتاسکیں تو ضمانت دینا تو بہت دور کی بات ہے۔
انہوں نے بتایا کہا کہ 61 دن کی جنگ کے بعد اسرائیل مغویوں کے معاملے میں آخری حد تک پہنچ گیا ہے تاہم حماس کی جانب سے مذاکرات کو روک دیئے جانے کے بعد اسرائیل کے پاس کوئی حکمت عملی نہٰیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ غزہ پر بمباری اس کا حل نہیں ہے اس طرح یرغمالیوں کی جان کو شدید خطرہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ بال اب بھی حماس کے کوٹ میں ہے اور اسرائیل کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے اسرائیل کو حماس سے بات کرنا چاہئے اور اگر ایسا نہیں کرتا ہے تو سوائے تباہی کے کچھ اور مجھے نظر نہیں آرہا ہے۔