(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) ۔ بلنکن کا کہنا تھا کہ غزہ میں بہت زیادہ فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں، لاتعداد متاثر ہوچکے ہیں، ہم ان کو مزید نقصانات سے بچانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کریں گے اور بھرپور کوشش کریں گے کہ ان تک زیادہ سے زیادہ مدد پہنچائی جا سکے۔
امریکہ کی ناجائز اولاد اور غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کے محصور شہر غزہ پر وحشیانہ بمباری کو 35 روز مکمل ہوگئےہیں اس تمام عرصے میں امریکہ نے فلسطینیوں پر اسرائیلی سنگین جنگی جرائم پر آنکھیں بند کرنے کے ساتھ ساتھ مجرمانہ حمایت جاری رکھی ہوئی تھی تاہم دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی جانب سے اسرائیل کے جرائم اور اس پر امریکی حمایت پر غیر معمولی احتجاج نے امریکہ کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اب صیہونی ریاست کے جرائم سے خود کو الگ کرلے۔
بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کی مذمت اور امریکا کے اندر فلسطینیوں کے حق میں اٹھنے والی آوازوں نے اثر دکھا دیا، شدید عوامی دباؤ کے باعث ’اسرائیل کے حق دفاع‘ کی تکرار کرنے والے انٹونی بلنکن اسرائیل سے متعلق اپنا بیانیہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے۔
گزشتہ چار ہفتوں سے بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیلی وزیراعظم کی مضبوط حمایت اور غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کے دفاع کے بیانیے میں ایک اہم تبدیلی رونما ہو گئی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ روز بات چیت کرتے ہوئے غزہ میں سویلین ہلاکتوں کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو اپنے اہداف کو مزید واضح کرنے کی تنبیہہ کردی۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کا کہنا ہے اگرچہ انٹونی بلنکن نے اسرائیلی اقدامات کی مذمت نہیں کی ہے تاہم بلنکن کے ایسے بیان کو بائیڈن انتظامیہ کے اسرائیل سے متعلق بیانے میں ایک اہم تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ غزہ میں بہت زیادہ فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں، لاتعداد متاثر ہوچکے ہیں، ہم ان کو مزید نقصانات سے بچانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کریں گے اور بھرپور کوشش کریں گے کہ ان تک زیادہ سے زیادہ مدد پہنچائی جا سکے۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ ہم اسرائیل سے اپنے بات چیت بھی جاری رکھیں گے کہ وہ اپنے اہداف کو واضح کرتے ہوئے بہت محتاط اقدامات کریں۔ انہوں نے کہا اسرائیل سے بات چیت کے دوران غزہ معاملے پر کچھ اہم پیشرفت ہوئی ہے تاہم انہوں نے اسے ناکافی قراردیا۔ خیال رہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل پر غزہ سے متعلق اپنے جنگی حکمت عملی میں مزید کلیرٹی کے نتائج سے امریکی حکام تاحال مطمئن نظر نہیں آتے۔