31 اکتوبر کو حزب اللہ کی جانب سے فلسطینی مزاحمت – سرایا القسام و سرایا القدس و دیگر – کے نام ایک خط شائع کیا گیا۔
یہ خط ایک نہایت اہم پیشرفت ہے۔ حزب اللہ نے اپنے رہنما سید حسن نصر اللہ کے علاوہ کبھی کسی اور کو مخاطب نہیں کیا۔ ایسا صرف ماضی میں دو بار ہوا ہے: 2006 میں جولائی کی جنگ کے دوران اور 2017 میں جب وہ داعش سے شام میں لڑ رہے تھے۔
حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں سے براہِ راست خطاب کرتے ہوئے، حزب اللہ نے محض صفوں کے اتحاد کا نہیں بلکہ متحد اور یکجہتی کا پیغام دے رہے ہیں۔ مغربی افواج میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے: ایک ہائبرڈ فوج دوسری ہائبرڈ فوج سے جذباتی عہد کرتی ہے۔
خط کا وقت بھی دو سطحوں پر اہم ہے، پہلا، کیونکہ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ جنگ 2006 میں اسرائیل کے ساتھ اور 2017 میں داعش کے ساتھ ہونے والی جنگوں کی طرح یہ وجود کی بقا کی جنگ ہے۔ دوسرا یہ کے یہ جمعہ کو سید حسن نصراللہ کی بہت زیادہ منتظر تقریر سے دو دن قبل شائع ہوا ہے۔
توقع کی جارہی ہے کے سید حسن نصراللہ سے اسرائیل اور امریکہ کے مقابلے میں دھمکیوں سمیت ایک نئی جنگی حکمت عملی جنم لے گی۔ یہ خط اِس امر کو ایک نظریاتی اور مذہبی رنگ دیتا ہے۔ جنگ میں لاکھوں مجاہدین کی شرکت کی بات اگر ہوگی تو یہ خط اس میں وزن ڈال دیتا ہے۔