(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ )برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی اطلاعات کے مطابق امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سہ فریقی معاہدے کی صورت میں فلسطینیوں نے سینکڑوں ملین ڈالر اور مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں پر اپنے کنٹرول کا مطالبہ پیش کیا ہے۔
بدھ کے روز فلسطینی حکام پر مشتمل ایک وفد نے سعودی دارالحکومت ریاض میں اپنے سعودی ہم منصبوں کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ فلسطینی حکام کی امریکی حکام سے بھی ملاقات متوقع تھی۔ کافی عرصے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ یہ معاہدہ امریکہ کی ثالثی میں ہو گا اور اس کے تحت سعودی عرب امریکہ سے بڑی دفاعی امداد حاصل کر پائے گا۔ لیکن ان معاہدوں کو اہم رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے منگل کو کہا ہے کہ ’ہمیں آنے والے عرصے میں (اس ضمن میں) کسی فوری اعلان یا پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔‘ تاہم مشرق وسطیٰ میں تعلقات میں تاریخی تبدیلی کو ذہن میں رکھتے ہوئے کسی بھی معاہدے کے ڈھانچے پر مسلسل قیاس آرائیاں جاری ہیں اور اس موسم گرما میں ریاض، عمان اور بیت المقدس کے دوروں کے درمیان امریکی شٹل ڈپلومیسی دوبارہ شروع ہو رہی ہے۔
ممکنہ طور پر امریکی صدر جو بائیڈن سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کو ایک اہم خارجہ پالیسی کی کامیابی کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے وہ اگلے سال آنے والے انتخابات سے قبل ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب، عرب اور اسلامی دنیا کا راہنما ہے۔ سنہ 1948 میں اسرائیل کا قیام ہوا تب سے اب تک سعودی عرب نے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
گذشتہ ماہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس معاہدے کے امکانات پر بات کرتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ ’ہم ایک تاریخی واقعے کا مشاہدہ کرنے جا رہے ہیں۔‘ لیکن ایک بات جو واضح ہے وہ یہ ہے کہ جو بھی معاہدہ ہو گا وہ متنازع ہو گا۔
کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے میں سعودی عرب امریکی ساختہ جدید ہتھیاروں اور سب سے زیادہ متنازعہ سول نیوکلیئر پروگرام بشمول اندرون ملک یورینیم افزودگی کے لیے امریکی ضمانتوں کا مطالبہ کر رہا ہے۔
ایسے معاہدے سے اسرائیل ایک خلیجی طاقت کے ساتھ تجارتی اور دفاعی تعلقات سے فائدہ اٹھائے گا اور سنہ 2020 میں ہونے والے دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ معاہدوں کے بعد خطے میں مزید تاریخی انضمام کی کوشش کرے گا۔
یہ چیز کئی عرصے سے اسرائیل حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔ ڈیانا بٹو فلسطینیوں کی سرکاری مذاکراتی ٹیم کی سابقہ قانونی مشیر ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’یہ زیادہ تر سکیورٹی اور تجارتی معاہدے ہیں۔ سال 2023 کی طرف آتے ہیں، اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب بھی اس میں شامل ہونا چاہتا ہے۔‘
کسی بھی کامیاب معائدے میں فلسطینیوں کے لیے اسرائیل کی جانب سے اہم رعایتیں شامل ہوں گی۔ اس کے علاوہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو سعودی عوام کو بھی مطمئن کرنا پڑے گا جو تاریخی طور پر اسرائیل مخالف ہیں اور فلسطینیوں سے گہری ہمدردی رکھتے ہیں۔
دوسری جانب ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے صدر بائیڈن کو یہ ثابت کرنے کی بھی ضرورت ہو گی کہ انھوں نے فلسطینیوں کے لیے اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انسانی حقوق کے بُرے ریکارڈ اور یمن کی جنگ میں اس کے کردار کی وجہ سے ڈیموکریٹک پارٹی میں بہت سے لوگ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معائدے کے حق میں نہیں ہیں۔
وہ اس حق میں بھی نہیں ہیں کہ اسرائیل کے موجودہ انتہائی قوم پرست حکومتی اتحاد کو کسی قسم کا انعام دیا جائے، ان کے مطابق اس اتحاد نے مغربی کنارے میں کشیدگی بڑھائی ہے اور اپنے ملک میں بھی بے مثال عدم استحکام کو جنم دیا ہے۔
بات چیت سے واقف ایک سینیئر فلسطینی اہلکار کے مطابق بدھ کے روز فلسطینی صدر محمود عباس کے قریب ترین سمجھے جانے والے دو افراد، انٹیلیجنس چیف ماجد فراج اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل حسین الشیخ سمیت فلسطینی حکام کی ٹیم نے سعودی عرب کے قومی سلامتی کے مشیر مساعد العيبان سے ملاقات کی۔
امریکی حمایت یافتہ عمل میں شامل ہونے کے بدلے ان کے مطالبات کی فہرست گذشتہ ہفتے عمان میں امریکی معاون وزیر خارجہ باربرا لیف کے ساتھ ملاقات کے دوران ترتیب دی گئی تھی۔
فلسطینی اہلکار نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ مطالبات میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں: مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو جو اس وقت مکمل اسرائیلی کنٹرول میں ہیں (سنہ 1990 کے اوسلو امن معاہدے کے تحت جنھیں ایریا ’سی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے) کو فلسطینی اتھارٹی کی حکمرانی والے علاقوں میں منتقل کیا جائے گا
مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاری کی ’مکمل بندش‘ کی جائے ۔
تقریباً 200 ملین ڈالر سالانہ کی فلسطینی حکام کو سعودی مالی امداد دوبارہ شروع کر دی جائے، جو 2016 سے سست ہو گئی تھی اور تین سال پہلے مکمل طور پر بند ہو گئی ہے۔
مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں امریکی قونصل خانے کو دوبارہ کھولا جائے جو فلسطینیوں کے لیے سفارتی مشن تھا اور جسے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بند کر دیا تھا ۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امریکہ کی ثالثی میں مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں جہاں سے وہ سنہ 2014 میں اس وقت کے وزیر خارجہ جان کیری کی قیادت میں رک گئے تھے ۔
یہ مطالبات بہت اہم ہیں اور مبینہ طور پر امریکیوں کے نزدیک یہ حد سے زیادہ ہیں۔ لیکن یہ سعودی، اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کے متعلق عوامی طور پر بیان کردہ سرکاری فلسطینی مؤقف سے بہت دور ہیں۔
عوامی طور پر اگر اسرائیل فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر نہیں چھوڑتا تو فلسطینی حکام اسے یکسر مسترد کر دیں گے۔ یہ پیش رفت سنہ 2002 کے سعودی زیرقیادت عرب امن اقدام کے بعد ہو رہی ہے جس کے تحت اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں سے انخلا اور مغربی کنارے اور غزہ میں ایک فلسطینی ریاست کے بدلے میں عرب دنیا کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پیشکش کی تھی۔
ڈیانا بٹو کے مطابق فلسطینی حکام جن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، موجودہ نقطہ نظر اس کی عکاسی کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’عام طور پر فلسطینی ان میں سے کسی بھی معاہدے کا حصہ نہیں بننا چاہتے کیونکہ [عرب دنیا کی حمایت] ہمارے پاس واحد آلہ رہ گیا ہے۔‘
’ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہمیں پرتشدد مزاحمت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہمیں قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کرنے کے لیے قانونی اقدامات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘
ڈیانا بٹو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’فلسطینی حکام اب سوال کر رہے ہیں: کیا ہمیں اس کے بجائے اپنے مطالبات سنانے اور ان کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے یا ہمیں وہ کرنا چاہیے جو ہم نے سنہ 2020 میں کیا تھا جو اسے نظر انداز کرنا تھا؟ اور پھر یہ ایک مسئلہ ہے، چاہے فلسطینی اتھارٹی اس پر کچھ بھی کرےوہ ناکام ہی ہوں گے۔‘
سنہ 2020 میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے صدر ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لائے۔ سوڈان نے بھی اسی سال اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی جانب قدم اٹھانے کا عہد کیا تھا لیکن یہ عمل ملک میں مخالفت اور اگلے سال فوجی بغاوت کی وجہ سے رک گیا۔
انھیں مشرق وسطیٰ میں پرانے مخالفین کے درمیان تعلقات میں ایک تاریخی تبدیلی کے طور پر دیکھا گیا، جس میں سفارتی، تجارتی اور سکیورٹی شراکت داری شامل ہیں۔
لیکن ناقدین نے نمایاں امریکی ترغیبات پر روشنی ڈالی ہے جس میں عرب آمریتوں کے لیے امریکی ساختہ ہتھیاروں تک رسائی بھی شامل ہے۔ اس وقت فلسطینی حکام اس بات چیت میں شامل نہیں تھے کیونکہ انھوں نے صدر ٹرمپ کی اسرائیل فلسطین کی ’صدی کی ڈیل‘ کے جواب میں امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
یہ معاہدہ اسرائیل کے حق میں زیادہ حاوی تھا اور امریکہ نے اپنا سفارتخانہ بھی بیت المقدس میں منتقل کر دیا تھا۔ فلسطینی حکام نے عرب ممالک کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو عرب یکجہتی کے ساتھ ’دھوکے‘ کے طور پر دیکھا۔
ایک اور سینیئر فلسطینی عہدیدار نے تجویز دی ہے کہ اس عمل سے مکمل طور پر باہر رہنے کے بجائے اس بار سعودیوں کے ساتھ بات چیت ریاض کو عرب امن اقدام کی بنیاد کی یاد دلانے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے جس کا ہدف ایک آزاد فلسطینی ریاست تھی۔
لیکن اگر فوائد کو نہ ہونے کے برابر سمجھا جاتا ہے تو اس میں شامل ہونے میں فلسطینی قیادت کے لیے خطرات ہیں جو پہلے ہی اپنے عوام میں بہت زیادہ غیر مقبول ہیں۔
سنہ 2020 میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات معمول پر آنے کے بعد کی گئی پولنگ سے یہ معلوم ہوا کہ فلسطینیوں کی ایک بہت بڑی اکثریتی تعداد اس معاہدے کو فلسطینی جدوجہد کو ترک کرنے کے طور پر دیکھتی ہے جس سے صرف اسرائیل کو فائدہ ہوا۔
اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کو دی جانے والی کسی بھی رعایت کو بنیامین نتن یاہو کے اتحاد میں شامل انتہا پسندوں کی طرف سے مسترد کر دینا تقریباً یقینی ہے۔
نتن یاہو نے اس سال کے شروع میں فلسطینی رعایتوں کو ایک ’چیک باکس‘ مشق قرار دیا جو سعودی عرب کے ساتھ کسی بھی اہم بات چیت کا حصہ نہیں ہوں گے۔