(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) مقبوضہ فلسطین میں مزاحمت کاروں کی غیر معمولی کارروائیوں کے نتیجے میں صیہونی فوجیوں سمیت آبادکاروں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے حوالے سے صیہونی ریاست کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ” فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو برقرار رکھنا ایک مشکل اور خون بہانے والا کام بن گیا ہے” ۔
تل ابیب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی ریسرچ کے رکن اور کنیسٹ میں خارجہ اُمور اور سیکیورٹی کمیٹی کے سابق سربراہ اوفر شیلاہ، نے عبرانی اخبار يديعوت أحرونوت میں لکھے گئے اپنے تجزیے میں کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے ، ایک جانب فلسطینی مزاحمت کاروں کے غیر معمولی حملے ہیں جس میں اسرائیلی شہریوں سمیت فوجی بھی نشانہ بن رہےہیں تو دوسری جانب سیاسی عدم استحکام کے باعث انتظامی امور مخدوش ہورہے ہیں ، عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوششوں نے فوج کو کمزور کردیا ہے جس کے اثرات مقبوضہ غرب اردن میں مزاحمتی کارروائیوں کی صورت میں نظر آرہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ گذشتہ روز صیہونی بستی "ایلی” کے قریب ہونے والے فائرنگ کے واقع جس میں چار آباد کاروں کی موت ہوئی اس کارروائی سے تاثر ملتا ہے کہ اسرائیلی فوج شمالی مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک فوجی آپریشن کرے گی، یہ فوجی آپریشن وقتی طورپر تو صورتحال کو "پرسکون” کرسکتا ہے لیکن یہ دیر پا حل نہیں ہے کیونکہ معاملہ انتہائی سنگینی اختیار کرگیا ہے ، جنین جو کہ مزاحمت کا گڑھ کہلاتا تھا اب بات جنین سے بہت آگے نکل چکی ہے اس کا مظاہرہ تمام مغربی کنارے کے شہروں قصبوں اور علاقوں میں دیکھنے میں آرہا ہے ۔
انھوں نے کہا ہے کہ میری نظر میں اسرائیل کی سیاسی ، سماجی اور عسکری صورتحال تشویشناک حد تک پہنچ گئی ہے ایسی صورتحال میں فلسطین پر مزید قبضہ جاری رکھنا خطرناک اور خون بہانے کے والا کام بن گیا ہے۔