(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) قیام پاکستان سے قبل ہی بانیان پاکستان کا ہمیشہ سے فلسطین کاز کے ساتھ ایک مضبوط اور گہرا رشتہ قائم رہا۔ ہمیشہ بانیان اور قائدین نے فلسطینی عربوں کی حمایت کی۔ فلسطین کے مفتی اعظم امین الحسینی ہمیشہ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے ساتھ مربوط رہے اور خط و کتابت کا ایک سلسلہ جاری رہا۔
قائد اعظم محمد علی جناح ہمیشہ ہی آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاسوں میں فلسطین کا خصوصی ذکر فرماتے تھے اور پالیسی بیان سے دنیا کو یہ بتاتے تھے کہ برصغیر کے مسلمانوں کا فلسطین کے ساتھ ایک گہرا اور عمیق تعلق ہے جسے کسی چیز سے ختم یا کم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
23مارچ سنہ1940ء کو جب قرار داد پاکستان پیش کی گئی تو ساتھ ساتھ قرار داد فلسطین پیش کی گئی جس میں واضح الفاظ میں کہا گیا کہ برصغیر کے مسلمان فلسطین پر کسی بھی ریاست کے قیام کو غاصبانہ تصور کرتے ہیں اور فلسطینی عوام کی حمایت کرتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد جب کچھ عرصہ بعد امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت یورپی حکومتوں کی ایماء پر سرزمین فلسطین کے اندر ایک ناجائز ریاست بعنوان اسرائیل قائم کی گئی تو قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کے قیام کو مسلم امہ قلب میں گھسائے جانے والا ایک خنجر قرار دیا اور اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیتے ہوئے اسے تسلیم نہ کرنے کا اصولی اعلان کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد جب لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے اور انہوں نے امریکہ کا سرکاری دورہ کیا تو ا س دورہ کے دوران کچھ صہیونیوں نے ان سے ملاقات کی اور امریکہ کا بھی بے حد اصرار تھا کہ پاکستان کسی طرح اسرائیل کو تسلیم کر لے یا تعلقات قائم کر لے لیکن لیاقت علی خان نے بھی بابائے قوم کے موقف پر ڈٹے رہنے کا عزم کیا اور تاریخی جملوں کی ادائیگی اس طرح سے کی ”Gentlemen, our soul is not for sale“۔ اس تاریخی جواب نے دنیا پر واضح کیا کہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے یا اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
پاکستان کا فلسطین کاز کے ساتھ ایک تاریخی اور عقیدتی رشتہ ہے۔سنہ1967اور سنہ1973ء میں ہونے والے دونوں عرب اسرائیل جنگوں میں پاکستانی ایئر فورس کے جوانوں نے اردن اور شام کی طرف سے جنگی جہاز اڑا کر اسرائیل کو دھول چٹائی تھی۔اسی طرح پاکستان کے عوام ہمیشہ سے فلسطین کی حمایت کرتے چلے آئے ہیں اور آج بھی فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔آج بھی فلسطین میں جو کچھ اسرائیلی بربریت کے نتیجہ میں ہوتا ہے پاکستان سے ہمیشہ ایک عوامی مضبوط آواز اٹھتی ہے۔
حالیہ چند سالوں میں مسلسل پاکستان کے خلاف سازشوں کا بازار گرم ہے۔ عرب دنیا اور امریکہ کا مسلسل دباؤ موجو دہے کہ پاکستان کسی طرح بھی اسرائیل کے ساتھ کم سے کم تعلقات ہی قائم کر لے یا کم سے کم تجارت اور سفارت کاری تک بات کرے لیکن پاکستان کی تمام حکومتیں ہمیشہ اس بات کو مسترد کرتی چلی آئی ہیں۔
حال ہی میں ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ پاکستان کا اصولی موقف شاید کمزوڑ پڑتا چلا جا رہاہے۔ پاکستانی شہریت رکھنے والے ایک صہیونی پیروکار شخص نے اسرائیل پہنچ کر پاکستانی پاسپورٹ لہراتے ہوئے تل ابیب سے تصاویر سوشل میڈیا پر نشر کر دیں اور کچھ دن بعد اسی صہیونی شخص نے کہ جو پاکستانی شہریت رکھتا ہے کچھ پاکستانی اشیائے خوردو نوش غاصب صہیونی ریاست اسرائیل میں پہنچانے کا دعوی کرتے ہوئے اپنے سوشل اکاؤنٹ پر لکھا کہ اس صہیونی نے پاکستان اور اسرائیل کے مابین تجارت کے تعلقات شروع کر دئیے ہیں اور پاکستان کے باقی تاجر بھی اس کے ساتھ شامل ہو جائیں۔
یہ معاملہ پاکستان کے سوشل میڈیا پر اس وقت شدت اختیار کرگیا جب اس معاملہ پر امریکن جیوش کانگریس نے بھی پاکستان کے خلاف اپنے منفی ایجنڈا کا اظہار کیا اور پاکستانی شہریت رکھنے والے صہیونی شہری کے اقدام کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان کے معاملات کو اسرائیل کے ساتھ منسلک کرنے کی ناکام کوشش کی۔
تمام تر صورتحال کے بعد حکومت نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز بلوچ نے پاکستان او ر اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کی سختی سے تردید کی اور واضح کیا کہ پاکستان کا اصولی موقف وہی ہے جو پہلے تھا۔ یعنی پاکستان آج بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی پاکستان اسرائیل کے ساتھ تجارت کرنے کا خواہاں ہے۔
اس تردید کے دوسرے روز وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے ایک وضاحتی بیان میں پاکستان کے موقف کو بیان کیا اور بتایا کہ پاکستان کا کسی قسم کا کوئی اسرائیل سے تعلق نہیں۔پاکستان کا موقف یہی ہے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔البتہ یہاں پر دونوں حکومتی عہدیداروں نے پاکستانی شہریت رکھنے والے صہیونی شہری کی اسرائیل یاتر اور پاکستانی اشیاء کو وہاں پہنچانے کے بعد سوشل میڈیا پر ا سکی جانب سے ہی پاکستان اور اسرائیل تعلقات کا واویلا کرنے کے معاملہ پر کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔
قوم کا حکومت سے تاحال یہ سوال اپنی جگہ پر موجو دہے کہ آخر کس آئین اور قانون کے تحت یہ صہیونی پاکستانی شہری اسرائیل گیا اور وہاں سے پاکستان کے خلاف منفی پراپیگنڈا کا آغاز کیا۔ حکومتی ایوان تاحال ایسے جواب دینے سے قاصر ہے۔
ایک اور اہم بات جو حکومتی تردید کے بعد سامنے آئی ہے بیان کرنا ضروری ہے۔حکومت نے پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی تردید تو کی ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا جب تک فلسطین کے عوام کو ان کا حق نہیں مل جاتا ہے۔ حالانکہ اس معاملہ میں اگر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جنا ح کے موقف کا موازنہ کیا جائے تو ہمیں اسرائیل کے بارے میں ایسی لچک کسی جگہ نظر نہیں آتی ہے۔کیونکہ قائد اعظم نے تو سنہ1920ء سے ہی مسلسل فلسطین کاز کی غیر مشروط حمایت جاری رکھی اور کسی بھی مقام پر ایسا نہیں کہا کہ اگر فلسطین کو آزادی ملتی ہے تو ہم اسرائیل کو تسلیم کریں گے اور اسی طرح قیام پاکستان کے بعد بھی بانیان پاکستان کے موقف میں ایسی کوئی تبدیلی نظر نہیں ٓتی جیسی ہمیں آج کل حکومت پاکستان کے موقف میں نظر آ رہی ہے۔
لہذا یہاں حکومت پاکستان کو چاہئیے کہ اپنا کمزور موقف تبدیل کرے اور قائد اعظم محمد علی جناح کے اصولی موقف کی تجدید کرے اور جب بھی فلسطین کاز کی حمایت کی بات کرے تو واضح طور پر اس بات کی تکرار کی جائے کہ اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے اور پاکستان اسے تسلیم نہیں کرے گا۔یہی قائد اعظم محمد علی جناح کا اصولی موقف اور یہی پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی آواز ہے۔ پاکستان کے عوام سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے لئے کام کرنے والے ملک دشمن عناصر کو نشان عبرت بنانا چاہئیے تا کہ کوئی بھی نظریہ پاکستان سے نفی کرنے کی جرات نہ کرے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان