(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ )حماس میں خواتین کے کام کی سب سے نمایاں رہ نما رجاء الحلبی اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ خواتین حماس تحریک کے آغاز سے ہی ایک اہم مقام پر فائز ہیں اور ان کی شمولیت کا آغاز ستر اور اسی کی دہائی کے اوائل تک ہوتا ہے۔
مقبوضہ فلسطین کے گذشتہ 15 سالوں سے محصور شہر غزہ میں غیرقانونی صہیونی ریاست اسرائیل کے لئے ایک ڈرا ؤنا خواب بننے والی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس میں جہاں نوجوان جنگجو موجود ہیں وہیں اس جماعت نے فلسطینی خواتین کو ایک اہم کردار تفویض کیا ہے۔ اس نے انہیں ان کی سماجی، سیاسی اور مزاحمتی سرگرمیوں میں شامل کیا ہے، جس میں اسیرات، شہیدائیں اور معاشرے کی کامیاب خواتین شامل ہیں۔
حماس اپنی صفوں میں فلسطینی خواتین کے کردار کی اہمیت سے پہلے ہی واقف تھی، کیونکہ وہ نہ صرف معاشرے کا نصف ہیں بلکہ حب الوطنی اور مسلسل قربانی کےساتھ محبت کرنے والی نسل کی پرورش کے لیے یہ ایک لازمی ستون ہے اور مزاحمتی محاذ کے لیے ایک مسلسل انکیوبیٹر ہے۔
فلسطینی خاتون نے 8 دسمبر 1987ء کو شروع ہونے والی ’انتفاضہ الحجارہ‘ میں حصہ لیا۔ انہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اور گرفتار ہوکر دشمن کی قید میں جانے کی صورت میں استقامت اور قربانی کی منفرد مثالیں پیش کیں۔
خواتین نے حماس کی تعلیمی، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ وہ 35 سال تک اہم اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہیں، یہاں تک کہ وہ قانون ساز کونسل کی نشستوں تک پہنچ گئیں اور مزاحمتی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
گزشتہ دو سال میں میڈیا شہداء کی ماؤں اور مقبوضہ مغربی کنارے میں مزاحمتی کارروائیوں میں شامل افراد کے ماڈلز میں سرفہرست ہے، کیونکہ وہ مزاحمت کو گلے لگاتے ہوئے اور اپنے شہید بیٹوں کو الوداع کرتے ہوئے ثابت قدمی اور بڑھتے ہوئے قومی اشتعال کو ظاہر کرتے ہیں۔
حماس میں خواتین کے کام کی سب سے نمایاں رہ نما رجاء الحلبی اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ خواتین حماس تحریک کے آغاز سے ہی ایک اہم مقام پر فائز ہیں اور ان کی شمولیت کا آغاز ستر اور اسی کی دہائی کے اوائل تک ہوتا ہے۔