(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) صہیونی ریاست مغربی کنارے میں پانی کے 85 فیصد سے زیادہ وسائل کو براہ راست کنٹرول کرتی ہے جو صہیونی بستیوں کو پانی کی لا محدود مقدار فراہم کی گئی ہےجب کہ فلسطینی آبادی پانی کی بوند بوند کو ترس گئی ہے۔
جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل کے 51 ویں باقاعدہ اجلاس کےدوران فلسطینی حق واپسی مرکز، العودہ سینٹر نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی راہداریوں کے اندر اسرائیلی پانی کی پالیسیوں کی وجہ سے مقبوضہ مغربی کنارے میں پانی کی قلت کے بارے میں فلسطینیوں کی شکایات اٹھائی جس میں کہا گیا ہے کہ غرب اردن کے علاقوں میں غیرقانونی طورپرقائم کردہ یہودی کالونیوں اور ان کے آبادکاروں کو فلسطینیوں کا پانی دیا جارہا ہے۔
رواں سال خواتین اور بچوں سمیت 13سو سے زائد فلسطینی بغیر جرم کے قید کئے گئے
سینٹر نے کہا قابض حکام فلسطینی واٹر اتھارٹی کو درجہ بندی (C) میں آزادانہ طور پر کام کرنے کے لیے ضروری لائسنس دینے سے انکار کرتے ہیں جس کے باعث موسم گرما کے دوران پانی کی شدید قلت سے فلسطینیوں کے مصائب میں اضافہ ہوا ہےجو اب تک کے گرم ترین موسموں میں سے ایک ہے۔ قابضین کی سیاسی مرضی کی وجہ سے پانی کی قلت کا بحران سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ شمالی مغربی کنارے میں وادی اردن کے گاؤں دوما سے تعلق رکھنے والے تقریباً 3500 فلسطینی اپنی بنیادی ضروریات اور امداد کو پورا کرنے کے لیے کافی پینے کے پانی کی تلاش کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ان کے مویشی، جو ان کی روزی روٹی کے لیے ضروری ہیں پیاس سے مرنے لگے ہیں۔
دوسری جانب غیر قانونی بستیوں کے قریب غیر قانونی طور پر رہنے والے اسرائیلی آباد کار لامحدود پانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ نہ صرف پینے کے لیے بلکہ سوئمنگ پولز کو بھرنے، فصلوں کو سیراب کرنے اور اپنی کاریں دھونے کے لیے بھی انہیں وافر پانی ملتا ہے۔
العودہ نے انسانی حقوق کونسل کے ارکان سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل 11 کی پابندی کرنے پر مجبور کریں، جس میں کہا گیا ہے کہ "پینے کے صاف پانی اور صفائی تک رسائی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حق ہے۔