(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) 1948 سے اب تک اسرائیل نے فلسطینیوں کے ایک لاکھ ستر ہزار سے زائد گھر مسمار کئے، مسماری کی عظیم مہم سے خواتین اور بچوں سمیت تقریباً 10 لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں، گذشتہ دو ہفتوں کےدوران اسرائیل نے فلسطینیوں کے 50 گھر مسمار کئے۔
مقبوضہ فلسطین میں صہیونی ریاستی دہشتگردی پر اقوام متحدہ کی جانب سے قراردادوں کی منظور اور مسلسل مذمت کے باوجود غاصب ریاست فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہی ہے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور نے اپنی پندرہ روزہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی قابض فوج نے صرف مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں دو ہفتوں کے دوران فلسطینی شہریوں کے 50 عمارتی ڈھانچے مسمار کیئے، ان پر قبضہ کر لیا یا خود فلسطینیوں سے جبری مسمار کرادیئے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
اسرائیل نے بارہ سالوں کے دوران العراقیب گاؤں کو 205 مرتبہ مسمار کیا
۔ رپورٹ کے مطابق یہ مسماری کے واقعات دو اگست سے پندرہ اگست کے دوران پیش آئے ہیں۔ مسماری کا بھونڈا جواز پیش کرتے ہوئے اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں نے اپنے گھروں کی تعمیر کےلئے قابض اسرائیلی بلدیہ اور دیگر متعلقہ حکام سے اجازت نہیں لی تھی اس لئے یہ تعمیرات غیر قانونی ہیں جس کو مسمار کرنا ضروری ہے۔
فلسطینیوں کے مکانات کو مسمار کرنے کی پالیسی 1948 میں قابض ریاست کے قیام کے بعد سے اسرائیل کا ایک پرانا طریقہ کار ہے جس سے فلسطینیوں پر دہشت طاری کرنا اور انہیں اپنی زمینوں سے نکلنے پر مجبور کرنا ہے۔
1948 سے اب تک غاصب صہیونی ریاست نے 500 سے زائد فلسطینی دیہات اور قصبوں کو تباہ کیا ہے۔ قابض ریاست کے ہاتھوں مسمار کیے گئے گھروں کی تعداد تقریباً 170,000 سے بھی زائد ہے جس کے باعث خواتین اور بچوں سمیت تقریباً 10 لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں۔