(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی صحافی نے کہاکہ شیرین ابو عاقلہ نے اپنی زندگی ان چیزوں کے بارے میں رپورٹنگ کے لیے وقف کر دی تھی جن کے بارے میں مین اسٹریم میڈیا بولنے کی ہمت نہیں کرتا اور ممتاز مغربی اداروں نے اس کے قتل کو محض “موت” قرار دے کر غلط طور پر رپورٹ کیا۔
مقبوضہ فلسطین میں صہیونی جارحیت کو مغربی میڈیا نے ہمیشہ چھپانے کی کوشش کی ہے اور یہ سب اسرائیل کی حامی مغربی طاقتوں کی منظوری سے ہوتا آیا ہے جس میں جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقائق کو دنیا تک پہنچانے میں اسرائیل کی طرف داری کی گئی تاہم انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے ساتھ ساتھ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کی چشم دید گواہ بتسلیم سمیت دیگر اسرائیلی سماجی تنظیموں نے متعدد مرتبہ اس جانبداری کا پردہ فاش کیا جس میں حالیہ فلسطینی خاتون صحافی شیرین ابو عاقلہ کےصہیونی فوج کے ہاتھوں جنین پناہ گزین کیمپ میں قتل کی مغربی میڈیا کی جانبدارانہ کوریج سامنے آتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
امریکہ کہ دوغلی پالیسی: شیریں ابو عاقلہ پر گولی دانستہ نہیں چلائی گئی چلائی، امریکہ
مقبوضہ فلسطین کے محصور علاقے غزہ کی پٹی میں مقیم صحافی وفا العدینی نے بتایا کہ یہ پہلا موقع نہیں جب 1948ء کے قبضے کے بعد صہیونی فوج نے فلسطینی صحافیوں کو نشانہ بنایا ہوشیریں اور غفران حالیہ ناموں میں سے دو ہیں، ہمارے پاس دسیوں صحافی ہیں جو قبضے کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
وفا نے مزید کہاکہ شیرین ابو عاقلہ نے اپنی زندگی ان چیزوں کے بارے میں رپورٹنگ کے لیے وقف کر دی تھی جن کے بارے میں مین اسٹریم میڈیا بولنے کی ہمت نہیں کرتا اور ممتاز مغربی اداروں نے اس کے قتل کو محض “موت” قرار دے کر غلط طور پر رپورٹ کیا۔
مغربی میڈیا نے اپنی سرخیوں میں اس حقیقت کوچھپادیا کہ اسے شیرین ابوعاقلہ کو اسرائیلی فورسز نے بے دردی سے گولی مار دی تھیاور آج بھی مغربی میڈیا اسرائیل کے اس جرم کو دنیا سے اوجھل کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، کیااسرائیلی فورسز کا یہی سلوک فلسطینی کے بجائے کسی غیر ملکی صحافی کے ساتھ کرتا تو اسے معاف کردیا جاتا؟