(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) مسئلہ فلسطین تاریخ کے چہرے پر ایک ایسا سیاہ دھبہ ہے جسے نہ تو عالمی برادری صاف کر پائی ہے اور نہ ہی نام نہاد بین الاقوامی ادارے اس مسئلہ کے منصفانہ حل میں کوئی پیشرفت کر پائے ہیں۔ ایسے حالات میں کہ جب مسئلہ فلسطین تقریبا ایک سو سال سے اقوام عالم کے سامنے موجود ہے یعنی اس دن سے جس دن حکومت برطانیہ نے فلسطین کے حق کو غصب کرتے ہوئے اعلان بالفور جاری کیا تھا۔
ایسے حالات میں کہ جب غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے تسلط کو دہائیاں بیت چکی ہیں، عالمی برادری بھی اسرائیل کے خلاف خاطر خواہ اقدامات سے پرہیز کرتی نظر آرہی ہے۔حتیٰ دنیا کے تمام وہ بین الاقوامی راستے جن سے کوئی امید قائم کی جاسکتی تھی سب کے سب یا تو غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے سامنے بے بس ہیں یا پھر اپنے مفادات کی خاطر شاید وہ فلسطینیوں کے قتل عام پر خاموش رہنا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔
دوسری طرف مسلمان دنیا اور خاص طور پر عرب دنیا ہے کہ جس نے ماضی میں فلسطین کی آزادی کی جنگیں لڑی ہیں لیکن اب دیکھا جا رہا ہے کہ چند عرب ریاستوں کے حکمرانوں نے باقاعدہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ظاہر کردیا ہے کہ فلسطین پر ہونے والے صہیونیوں کے غاصبانہ تسلط اور اس کے نتیجہ میں کئی دہائیوں پر محیط فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے صہیونی مظالم ان عرب حکمرانوں کو اسرائیل کے ساتھ ساتھ تسلیم ہیں۔
اگر ان حالات پر یقین کر لیا جائے اور کچھ لمحوں کے لئے ان حالات کو تصور کیا جائے تو شاید تمام امیدیں دم توڑتی نظر آتی ہیں لیکن ان تمام ظاہری امیدوں کے ساتھ ساتھ ایسی امید باقی ہے جو خود فلسطین کے عوام سے متعلق ہے۔
فلسطینی عوام کا مسلسل غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف نبرد آزما رہناکہ پتھر، غلیلوں اور خنجر کے بعد اب راکٹ، ڈرون ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ میزائل ٹیکنالوجی جیسے مراحل میں فلسطینی مزاحمت کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔اسی طرح تصویر کا ایک اور رخ بھی موجود ہے جسے مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ عوا م تک نشر نہیں کرتے لیکن فلسطین کے عوام اور ان سے زیادہ فلسطین کے دشمن غاصب صہیونی اور ان کے سرپرست بخوبی آگاہ ہیں۔ سنہ2000ء سے لبنان سے شروع ہونے والے اسرائیل کی شکست کا دور ہے کہ جو مسلسل سنہ2006ء، اور اس کے بعد بتدریج 2008, 2011, 2014اور 2019کے معرکوں میں فلسطینیوں اور لبنانیوں کی عظیم الشان کامیابیاں ہیں۔یہ کامیابیاں صرف یہاں تک نہیں بلکہ سنہ2011سے 2020تک مسلسل نو سال تک خطے میں داعش کے منصوبہ کو ناکام بنانا بھی اسی مزاحمتی بلاک کی کامیابیوں میں شمار ہوتا ہے اور اسرائیل کی شکست میں رقم کیا جاتا ہے۔
ان تمام حالات میں اسرائیل ایک شکست خوردہ کھلاڑی کی مانند ہے جو اب عرب حکمرانوں کی کمزور بیساکھیوں کا سہارا لے کر خطے میں کھڑا ہونے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ اس کوشش میں یہی عرب ریاستوں کے حکمران پاکستان جیسے عظیم اسلامی ملک کو بھی کیچڑ میں گھسیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی خواہش ہے کہ وہ اسلامی دنیا کے سب سے اہم ترین ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے۔یاد رہے کہ اس عنوان سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے دو ٹوک الفاظ میں فلسطین پر قائم کی جانے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست کو ناجائز قرا ر دیا تھا اور اسے تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان اور فلسطین کا رشتہ ایک جان اور جسم جیسا ہے۔ جیسا کہ اسلامی روایات میں آیا ہے کہ مسلمان جسد واحد کی مانند ہیں تاہم پاکستان اور فلسطین کا رشتہ بھی اسی طرح ایک جسد واحد جیسا ہی ہے۔اگر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل فلسطین کی سرزمین پر قائم ہوئی تو اس کا درد بانی پاکستان نے اسی طر ح سے محسوس کیا جس طرح ایک فلسطینی اس درد کو محسوس کر رہا تھا۔ یہی صورتحال آج تک قائم ہے آج بھی فلسطین میں ہونے والے صہیونی مظالم پر ہر پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے اور فلسطینی بھائی کے درد کو اپنا درد محسوس کرتے ہوئے فلسطین کے عوام کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتا ہے۔
پاکستان کا ایسا ہی رشتہ کشمیر کے ساتھ ہے جس کو بانی پاکستان قائد اعظم نے پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا۔پاکستان اور فلسطین کا یہ رشتہ یک طرفہ نہیں ہے بلکہ دوسری طرف ظلم کی چکی میں پستے ہوئے فلسطینی اپنے دکھ اور درد کو بھول کر پاکستان کی خوشیوں میں خوش ہوتے ہیں اور دکھ میں برابر کے شریک ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔پاکستان نے جس زمانہ میں بھارت کی دہشت گردی کو لگام دینے کے لئے ایٹمی دھماکے کئے تو اس زمانے میں پاکستانی قوم تو فخر سے سر بلند تھی ہی لیکن دنیا میں پاکستانیوں کے ساتھ سر فخر سے بلند کرنے اور سینہ چوڑا کرنے والی قوم فلسطینی قوم ہی تھی۔
فلسطینی نوجوان یہ کہتے ہوئے نظر آتے تھے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور پاکستان کا ایٹمی طاقت حاصل کرنا صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ فلسطینیوں ک طاقت اور پورے عالم اسلام کی طاقت ہے۔ یہ فلسطینیوں کے جذبات اور احساسات تھے۔
اس سے قبل کی اگر مختصر تاریخ کا جائزہ بھی لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ سنہ1967ء میں لڑی جانے والے جنگ میں پاکستان فضائیہ کے جانباز اور بہادر ہوابازوں نے اردن کی سرزمین سے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی فضائی طاقت کو نقصان پہنچایا اور اسرائیلی فضائیہ کے طیاروں کو مارگرانے والے پاکستانی ہوا باز تھے۔
اسی طرح جب سنہ1973ء میں فلسطین اور قبلہ اول کی بازیابی کے لئے اسرائیل کے ساتھ معرکہ ہوا تو اس زمانہ میں بھی پاک فضائیہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کم ترین وقت میں اسرائیل کے کئی لڑاکا طیاروں کو نشانہ بنا کر تباہ و برباد کیا اور اس جنگ میں اسرائیل کا جانی و مالی نقصان پہنچانے میں پاک فضائیہ جانبازوں کا کردار نمایا ں تھا۔
اگر ماضی کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں تاریخ کے اوراق میں ملتا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے بھی بر صغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں سنہ1920ء میں میڈیکل ٹیم فلسطین روانہ کی تھی، اسی طرح مختلف اوقات میں فلسطینیوں کے حق میں بر صغیر میں فلسطین ڈے منائے جاتے رہے اور اسی طرح سنہ1940ء میں قرار داد پاکستان کے ساتھ ساتھ قرار داد فلسطین پیش کی گئی اور فلسطین فنڈ قائم کر کے فلسطینیوں کی جدوجہد کی حمایت کی گئی۔
موجودہ نازک حالات میں جہاں دنیا کے چند عرب ریاستوں کے حکمران فلسطینی قوم کے ساتھ خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں ایسے حالات میں ہمیشہ کی طرح فلسطینی عوا م کی امیدیں پاکستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔اگر چہ فلسطینی مزاحمت کی اپنی جدوجہد خود امید کی ایک ایسی نہ ختم ہونے والی کرن ہے جو فلسطین ا ور قدس شریف کی آزادی کی امید ہے وہاں ساتھ ساتھ اس امید کی کرن کو اگر کسی سے امیدباقی ہے تو وہ عالم اسلام کے قلعہ پاکستان سے ہے۔
پاکستان کے عوام یقینا فلسطینیوں کی اس امید کو قائم رکھیں گے اور کسی بھی حکمران اور ادارے کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ پاکستان اور فلسطین کے جسد واحد کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں پارہ پارہ کر دیں۔یہی بانیان پاکستان کی امیدتھی جسے پاکستان کے ہر فرد کواپنا اولین فریضہ سمجھتے ہوئے پورا کرنا اور باقی رکھنا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان