(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) مکتوب کے مطابق "اسرائیل نے جنگ کے حالات پیدا کیے، علاقائی استحکام کو برباد کیا ہے اورفلسطینیوں کو تشدد کے زور پر نقل مکانی پر مجبور کیا ہے جبکہ دوسری جانب "امریکہ کی غیر متزلزل مالی، فوجی اور سیاسی حمایت نے فلسطینیوں پرغیر قانونی تسلط اور جبر کو ہوا دی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکہ کی مشہورو معروف یونیورسٹی ہارورڈ کی جانب سے انتالیس فیکلٹی ارکان نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے ہیں جس میں بائیکاٹ، ڈیویسٹمنٹ اور پابندیوں کی تحریک اور اسرائیلی نسل پرستی کے خلاف طلبہ کی کوششوں کی توثیق کی گئی ہے۔
یونیورسٹیکی جانب بسے اس مکتوب میں "اسرائیل کے ریاستی تشدد نے جنگ کے حالات پیدا کیے ، علاقائی استحکام کو بر باد کیا ہے اورفلسطینیوں کو تشدد کے زور پر نقل مکانی پر مجبور کیا ہے جبکہ دوسری جانب "امریکہ کی غیر متزلزل مالی، فوجی اور سیاسی حمایت نے فلسطینیوں پرغیر قانونی تسلط اور جبر کو ہوا دی ہے۔
مکتوب میں ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم B’Tselem کی رپورٹوں کا زکر ہے جو فلسطینیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فلسطینیوں کے خلاف علیحدگی اور امتیازی سلوک کی مکمل دستاویزات فراہم کرتی ہےاور اسرائیل کے زیر کنٹرول تمام علاقوں میں فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کے ثبوت جمع کرتی ہیں جن سے اسرائیل کی اصل صورت بین الاقوامی سطح پر سامنے آتی ہے۔
خط میں ہارورڈ کے متعدد اساتذہ کے کرمسن ایڈیٹوریل کی مخالفت میں لکھے گئے ایک بیان پر تنقید بھی کی گئی جس میں بی ڈی ایس کی توثیق کی گئی تھی، اور کہا گیا ہے: "بیان میں کبھی بھی توسیع پذیر بستیوں، تعلیمی اداروں کی آبادکاری کے ذریعے فلسطینی اراضی پر قبضے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اسرائیل فلسطینی زمین قبضے کو مستحکم کرنے، فلسطینی مظاہرین کی معمول کی قید اور قتل، فلسطینیوں کی بے دخلی اور ان کے گھروں کی تباہی، اور فلسطینی صحافیوں کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کامزید کہنا ہےکہ 2018 میں اسرائیل میں یہودی بالادستی کو یہودی قومی ریاست کے بنیادی قانون کے ذریعے قانونی منظوری دی گئی، جو اسرائیل میں قومی خود ارادیت کے حق کو یہودیوں کے لیے منفرد بناتا ہے اورفلسطینیوں کو اس مقام پر سانس لینے کی بھی جگہ فراہم کر نے سے انکاری ہے جو کہ نسل پرستی کی بہت واضح مثال ہے۔