(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں حالیہ تقریر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے مطالبے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مزاحمت ایک قومی اور اخلاقی فریضہ ہے اور اس کی قانونی حیثیت ان ثابت قدم فلسطینی عوام سے حاصل ہے جن کے لیے قبضے کے خلاف جدوجہد بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایک جائز حق ہے۔
حماس نے اپنے بیان میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر کی اس بات کی مذمت کی کہ انہوں نے صہیونیوں کی جھوٹی روایت کو دہراتے ہوئے مزاحمت پر شہریوں کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہماری عوام اور ان کی مرضی پر کوئی سرپرستی یا بالادستی مسلط کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوگی۔
حماس نے محمود عباس کے اس دعوے کو بھی مسترد کیا کہ حماس کو حکومت میں کوئی کردار حاصل نہیں ہوگا۔ تنظیم نے اسے فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کی خلاف ورزی اور بیرونی منصوبوں اور دباؤ کے سامنے ناقابلِ قبول تسلیم قرار دیا۔
حماس نے مزید کہا کہ جب تک ہماری سرزمین اور ہماری عوام کے دلوں میں قبضے کی جڑیں موجود ہیں، مزاحمت کے ہتھیاروں کو چھوڑنا ممکن نہیں۔
بیان میں زور دیا گیا کہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر کی طرف سے مزاحمت کے ہتھیار جمع کرانے کی درخواست کو ہم خاص طور پر اس وقت یکسر مسترد کرتے ہیں جب ہماری عوام غزہ اور مغربی کنارے میں صہیونی دشمن کی وحشیانہ اور تباہ کن جنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔
بیان کے آخر میں کہا گیا کہ قومی آزادی کے تحفظ اور فاشسٹ قابضین کے منصوبوں کو ناکام بنانے کا واحد راستہ قومی اتحاد اور ایک جامع جدوجہد پر اتفاق ہے تاکہ فلسطینی عوام کی آزادی، ان کی واپسی اور بیت المقدس کو دارالحکومت بنا کر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنایا جا سکے۔