برطانیہ کے ایک اعلیٰ سطح کے فوجی افسر نے مبینہ طور پر اعتراف کیا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں صدر محمود عباس کے زیر انتظام عباس ملیشیا کو تربیت فراہم کرنے والے فوجی اہلکار جیلوں میں زیرحراست فلسطینیوں پر بہیمانہ تشدد کر رہے ہیں. برطانوی اخبار” دی ٹائمز” کے مطابق برطانوی فوجی افسر کرنل جیمز میکنز کے یہ اعترافات برطانیہ کی انسانی حقوق کی ایک تنظیم کی حالیہ ایک رپورٹ میں شائع کیے گئے ہیں.مذکورہ فوجی افسر رام اللہ میں عباس ملیشیا کے اہلکاروں کو عسکری تر بیت فراہم کرنے کے نگران رہ چکے ہیں. وہ مبینہ طورپر اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے فوجی اہلکار نہ صرف عبا س ملیشیا کو جنگی تربیت فراہم کرتے ہیں بلکہ جیلوں میں زیر حراست رکھے گئے مزاحمت کاروں بالخصوص اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” اور جہاد اسلامی کےارکان سے تفتیش کرتے ہیں.مسٹرجیمز کا کہنا ہے کی دوران تفتیش وہ قیدیوں پر تیسرے درجے کا "ٹارچر” کا طریقہ بھی استعمال کرتے رہے ہیں جو عالمی سطح پر ممنوع خیال کیا جاتا ہے. برطانوی فوجی افسر کا کہنا ہے کہ رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کی جیلوں میں زیرحراست افراد میں سے بہت کم ایسے ہیں جن پر تشدد نہ کیا جاتا ہو.بیشتر قیدیوں پر خود عباس ملیشیا کے اہلکار تشدد کرتے ہیں اور ان سے الزامات کے اعترافات کے لیے آخری درجے کے تشدد کے طریقے استعمال کئے جاتےہیں، تاہم بعض حساس قیدیوں سے تفتیش کے دوران برطانوی فوجیوں سے بھی تفتیش میں مدد لی جاتی رہی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی بدستور جاری ہے. برطانوی اخبار نے اس خبر کی مزید تصدیق کے لیے رام اللہ میں عباس ملیشیا کے ایک سینئر عہدے دار سے بات کی.اس پر عباس ملیشیا کے تفتیشی افسر نے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ کہا کہ "ہم کوئی جنیوا یا سویڈن تھوڑے ہی ہیں کہ انسانی حقوق یا عالمی قوانین کا لحاظ کریں، ہمیں تفتیش کرنا ہوتی ہے اور ہم جہاں اور جیسا طریقہ ضروری خیال کرتے ہیں تفتیش کے لیے استعمال کرتے ہیں. خیال رہے کہ برطانوی فوجیوں کے فلسطینیوں محروسین پر تشدد کا انکشاف ایک ایسے وقت میں ہوا جب حال ہی میں برطانیہ میں انسانی حقوق کی دو تنظیموں نے انکشاف کیا تھا کہ عباس ملیشیا کے اہلکار زیرحراست فلسطینیوں پر بدترین تشدد کر رہے ہیں. تشدد کے سلسلے میں عباس ملیشیا نے تمام انسانی حقوق اور عالمی قوانین بھی تاراج کر دیے ہیں.