اپنی اسیری کے بارے میں انہوں نے کئی نظمیں اور قصیدے لکھے۔ ایک عربی مصرع ہمیشہ کے لیے امر ہوکر رہ گیا۔
عوفر والمسکوبیہ والسجن اللی بالصحرا
’عوفر، مسکوبیہ اور صحرائی جیل (النقب) عقوبت خانوں میری راہ گذر بنے۔
احمد دحبور کو انقلابی شاعر قرار دینا بے جا نہ ہوگا۔ ان کی شاعری آج بھی اہل فلسطین پڑھتے اور سر دھنتے ہیں۔
انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے فلسطینیوں میں زندگی، بیداری اور جدو جہد کا درس دیا۔ اہل فلسطین ان کے کلام کو کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔ اپنی شاعری میں انہوں نے صہیونی دشمن کے مظالم کو شاعرانہ پیرائے میں بیان کرکے فلسطینی آزادی کی جدو جہد کو امر کردیا۔
احمد دحبور ۔۔۔ مختصر تعارف
احمد دحبور سنہ 1946ء میں مقبوضہ فلسطین کے حیفا شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان بھی قیام اسرائیل کے وقت مسلح صہیونی دہشت گردوں کے زیرعتاب آیا۔
سنہ 1948 ء میں دو سالہ احمد دحبور بھی اپنے خاندان کے ہمراہ ھجرت پرمجبور ہوا۔ وہ اپنے دیگر اہل خانہ کے ہمراہ شام کے شہر حمص میں قائم فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں منتقل ہوئے۔
حمص میں قیام کے دوران احمد دحبور نے واجبی سے تعلیم حاصل کی۔ مگر شعری ذوق بچپن ہی میں ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری کے لیے بھی معاصر اور قدیم عرب شاعری سے بھرپور استفادہ کیا۔
سنہ 1988ء میں ان کی ادبی اور شاعرانہ خدمات کے اعتراف میں ادبی جریدے’لوتس‘ کا مدیر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ بعد ازاں وہ تنظیم آزادی فلسطین کے شعبہ ادب وثقافت کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ وہ اس عہدے پر ایک سال تک رہے۔ انہیں فلسطینی صحافیوں اور مصنفین کی فیڈریشن کا بھی رکن منتخب کیا گیا۔
فلسطینی تجربہ
احمد دحبور کو فلسطینی ثقافت اور ادب کا اہم ترین ستون شمار کیا جاتا تھا۔ انہوں نے فلسطینیوں کے سنگین حالات کو نہ صرف تنظیم آزادی ثقافت کے ڈائریکٹر ادب وثقافت کی حیثیت سے اجاگر کیا بلکہ اپنی شاعری کے زریعے بھی بتایا کہ صہیونی ریاست فلسطینیوں پر کس طرح اور کس نوع کے مظالم ڈھا رہی ہے۔
شاعری کے میدان میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’الضواری وعیون الاطفال‘ حکایۃ الولد الفلسطینی’ طائرات الوحدات، شہادۃ بالاصابع الخمسہ‘ کسور العشریہ شامل ہیں۔ انہوں نے سنہ 1988ء میں شعرو ادب میں ’توفیق زیاد‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
انہوں نے فلسطین کے قومی مواقع پر بھی خصوصی نظمیں لکھیں۔ ان کی مشہور عالم نظموں میں (اشهد يا عالم) و(عوفر والمسكوبية) و(يا شعبي يا عود الند) و(والله لأزرعك بالدار) و(يا بنت قولي لأمك) و(غزة والضفة) و(صبرا وشاتيلا) Â وغیرہ شامل ہیں۔
فلسطینی قوم کا ناقابل تلافی نقصان
احمد دحبور طویل علالت کے بعد 8 اپریل 2017ء کو 71 سال کی عمر میں فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے وسطی شہر رام اللہ میں عربی اسپتال میں انتقال کرگئے۔
فلسطینی وزارت ثقافت و اطلاعات اور فلسطین کی سیاسی قیادت نے گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ احمد دحبور کے انتقال کو فلسطینی قوم کا ناقابل تلافی نقصان قراردیا۔
فلسطینی وزارت ثقافت کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ احمد دحبور نے اپنی پوری زندگی قضیہ فلسطین کو اجاگر کرنے میں صرف کی۔ اپنی شاعری کی مدد سے انہوں نے فلسطینی قوم کو جسد واحد بنانے اور مسئلہ فلسطین کو عالمی فورمز پر اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔