رپورٹ کے مطابق صہیونی پولیس کی موجودگی میں ’’یہودا عتصیون‘‘ نامی یہودی انتہا پسند ایک ہاتھ میں تلمودی عبادت کی علامت اٹھائے، دوسرے ہاتھ سے وکٹری کا نشان بنائے 30 سال کے بعد ایک بارپھر مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا اور مقدس مقام کی بے حرمتی کی ہے۔ یہودی عتصیون کی اس حرکت اور اسرائیلی پولیس کی جانب سے قبلہ اوّل میں اس کے دھاوے میں مدد فراہم کرنے پر سخت احتجاج کیا ہے۔
خیال رہے کہ یہودا عتصیون نے سنہ 1980 ء کے عشرے میں قبلہ اوّل میں قبۃ الصخرۃ کو بم دھماکے سے اڑانے کی سازش تیار کی تھی۔ اگرچہ یہ سازش کامیاب نہیں ہوسکی۔ اسرائیلی حکومت نے اس گھناؤنی سازش کے بعد یہودا عتصیون کےمسجد اقصیٰ میں داخلے پرپابندی عائد کردی تھی تاہم گذشتہ روز عتصیون توراتی مذہبی علامت لہراتے ہوئے مسجد اقصٰی میں داخل ہوا۔ اس نے ایک ہاتھ میں فتح کا نشان بنا رکھا تھا۔
خیال رہے کہ حال ہی میں بیت المقدس میں اسرائیل کی مجسٹریٹ عدالت نے یہودا عتصیون کو 15 دن کے لیے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ حال ہی میں اردن، فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کےدرمیان طے پائے سہ فریقی معاہدے کی روشنی میں کیا گیا تھا جس کے تحت یہودیوں کو قبلہ میں داخلے کی تواجازت دی تھی مگر انہیں وہاں عبادت کی اجازت نہیں دی گئی تھی جب کہ تمام فلسطینیوں کو عمر کی قید کے بغیر غیر مشروط طور پرمسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کاحق دیاگیا تھا۔
دوسری جانب مسجد اقصیٰ کے ڈائریکٹر الشیخ عمر الکسوانی نے یہودا عتصیون جیسے شر پسند یہودی عناصر کی قبلہ اوّل میں اشتعال انگیز داخلے کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صہیونی حکومت یہودا عتصیون جیسے عناصر کو ڈھیل دینے اور انہیں قبلہ اوّل تک رسائی دینے کی ذمہ دار ہے۔ یہودا عتصیون جیسے خطرناک صہیونیوں کے قبلہ اوّل میں داخل ہونے کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔